settings icon
share icon
سوال

خُدا کے علیمِ کُل ہونے سے کیا مُراد ہے؟

جواب


علیمِ کُل کی تعریف "مکمل علم رکھنے کی حالت" کے طور پر کی گئی ہے، یعنی "سب کچھ جاننے کی خوبی/قابلیت۔" خُدا کے لیے اپنی ساری دیکھی اور اندیکھی مخلوقات پر حاکمِ کُل ہونے کے لیے علیمِ کُل ہونا ضروری ہے۔ خُدا ثالوث ہے اور اُس کا علیمِ کُل ہونا پاک تثلیث کے اندر صرف کسی ایک اقنوم تک محدود نہیں ہے بلکہ اپنی فطرت کے لحاظ سے خُدا باپ، خُدا بیٹا اور خُدا رُوح القدس تینوں ہی علیمِ کُل ہیں۔

خُدا سب کچھ جانتا ہے( 1 یوحنا 3 باب 20آیت)۔ وہ نہ صرف ہماری زندگیوں کی ہر طرح کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات سے واقف ہے بلکہ وہ ہمارے اردگرد ہر ایک چیز سے مکمل طور پر واقف ہےکیونکہ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ زمین پر گرنے والے ہر ایک چڑیا اور ہمارے سر سے گرنے والے ہر ایک بال کے بارے میں با خبر ہے (متی 10 باب 29-30آیات)۔ خُدا صرف ہر اُس چیز کو ہی نہیں جانتا جو تاریخ کے آخر تک اِس کائنات میں ہوگی(یسعیاہ 46 باب 9-10آیات)، بلکہ وہ ہمارے بولنے سے پہلے ہی ہمارے ہر طرح کے خیالات کو بھی جانتا ہے (139 زبور 4آیت)۔ وہ ہمارے دِلوں سے مکمل طور پر واقف ہے، وہ حتیٰ کہ ہماری ماں کے پیٹ میں بھی ہمیں جانتا تھا۔ سلیمان بادشاہ اِس سچائی کا اظہار بڑے احسن طریقے سے کرتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ " فقط تُو ہی سب بنی آدم کے دِلوں کو جانتا ہے۔" (1 سلاطین 8 باب 39آیت)۔

اگرچہ خُدا بیٹے نے اپنے آپ کو حلیم و منکسر کر کے اپنے آپ کو خالی کردیا (فلپیوں 2 باب 7آیت)، پھر بھی اُس کے کامل علم کو نئے عہد نامے کی مختلف تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اعمال 1 باب 24آیت میں رسولوں کی طرف سے کی گئی پہلی دُعا " اَے خُداوند! تُو جو سب کے دِلوں کی جانتا ہے " ظاہر کرتی ہے کہ مسیح علیمِ کُل ہے ۔ اور اب چونکہ وہ ہماری التجاؤں کو قبول کرتا اورخدا کے دہنے ہاتھ بیٹھ کر ہمارے شفاعت کرتا ہے، اِس لیے اُس کا علیمِ کُل ہونا ضروری ہے۔ جب یسوع اِس زمین پر تھا اُس وقت بھی ہم اُس کے علیم ِ کُل ہونے کا واضح مظاہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اناجیل کے بہت سارے واقعات میں وہ اپنے سُننے والوں کے دِلوں کی باتوں کو جانتا تھا (متی 9 باب 4آیت؛ 12 باب 25آیت؛ مرقس 2 باب 6-8آیات؛ لوقا 6 باب 8 آیت)۔ وہ لوگوں کیساتھ ملنے سے پہلے ہی اُن کی زندگیوں کے بارے میں جانتا تھا۔ جب وہ سامریہ کے ایک شہر سُوخار میں کنویں کے پاس ایک سامری عورت سے ملا جو دوپہر کے وقت وہاں پر پانی بھرنےآئی تھی تو اُس نے عورت سے کہا کہ "کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُو اب ہے وہ تیرا شوہر نہیں "(یوحنا 4 باب 18آیت)۔ وہ اگرچہ لعزر کے گھر سے قریباً 25 میل دور تھا پھر بھی اُس نے لعزر کے مرنے کے وقت اپنے شاگردوں کو بتا دیا کہ لعزر مرگیا ہے (یوحنا 11 باب 11-15آیات)۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ جا کر اُس کے لیے فسح کی تیاری کریں اور اُس نے اُنہیں بتا دیا تھا کہ جب وہ اُس کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچیں گے تو وہ کس طرح کے شخص کو دیکھیں گے جس کے پیچھے پیچھے اُنہوں نے جاناہے(مرقس 14 باب 13-15آیات)۔ ایک اور چیز کہ وہ نتن ایل کو ملنے سے پہلے ہی اُس کو جانتا تھا اور وہ اُس کے دل کے خیال سے بھی واقف تھا(یوحنا 1 باب 47-48 آیات)۔

بڑے ہی واضح طور پر ہم یسوع مسیح کو اِس دُنیا پر علیمِ کُل ہونے کے ناطے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہاں پر بھی ایک مسئلہ سر اُٹھاتا ہے۔ یسوع مختلف طرح کے سوالات پوچھتا ہے جس سے علم کی غیر موجودگی یا کمی کا اظہار ہوتا ہے، حالانکہ وہ زیادہ تر سوالات اپنے علم کے لیے نہیں بلکہ اپنے سننے والوں کے فائدے کے لیے پوچھتا ہے ۔یہ چیز خُداوند یسوع مسیح کی بشریت کا ایک پہلو ہے جسے اُس نے اِس زمین پر بطورِ مجسم خُدا آنے کے لیے اختیار کیا۔ ہم پڑھتے ہیں کہ وہ "حکمت اور قد و قامت میں اور خُدا کی اور اِنسان کی مقبولیّت میں ترقی کرتا گیا" (لوقا 2 باب 52آیت)، اور یہ کہ "اُس نے دُکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سیکھی" (عبرانیوں 5 باب 8آیت)۔کلامِ مُقدس میں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ اُس نے کہا تھا کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ دُنیا کب ختم ہوگی (متی 24 باب 34-36آیات)۔ اِس لیے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر خُدا بیٹا باقی سب کچھ جانتا تھا تو پھر وہ اِن باتوں کے بارے میں کیوں نہیں جانتا تھا؟ اِس بات کو محض انسانی محدودیت تصور کرنے کی بجائے ہمیں اِس چیز کو معلومات کے مجموعے کے خاص کنٹرول میں رکھے جانے کے طور پر سمجھنا چاہیے۔ یہ خُداوند یسوع مسیح کی اپنی مرضی سے کیا گیا عمل تھا ، اُس نے اپنی مرضی سے اپنے آپ کو اِس قدر حلیم کیا تاکہ وہ ہماری انسانی فطرت کو اپنا سکے (فلپیوں 2 باب 6-11آیات؛ عبرانیوں 2 باب 17آیت)، اور وہ پچھلا آدم بن سکے۔

آخر میں ایک علیمِ کُل خُدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اور جب ہم ایسے خُدا پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم اُس پر پورے یقین کے ساتھ بھروسہ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ کہتا ہے کہ جب تک ہم اُس میں ہیں وہ ہمیں کبھی ناکام نہیں ہونے دے گا۔ وہ ہمیں ازل سے جانتا ہے، اُس وقت سے جب یہ ساری تخلیق بھی عمل میں نہیں آئی تھی۔ خُدا میرے اور آپکے بارے میں جانتا تھا کہ ہم کونسے وقت پر کہاں پر ہونگے اور کس کس سے ملیں گے۔ اُس نے ہماری انسانی محرومی اور گناہ آلودگی کو بھی پہلے سے دیکھا ہوا تھا لیکن پھر بھی اپنی محبت میں وہ ہم پر اپنی مہر کرتا اور مسیح خُداوند میں ہمیں اپنی محبت کے لیے اپنے پاس بلاتا ہے (افسیوں 1باب3-6آیات)۔ ہم اُسے رُو برو دیکھیں گے لیکن اُس کی ذات کا فہم ہمارے لیے کبھی بھی مکمل نہیں ہوگا۔ جب ہم اُس کی آسمانی محبت کا تجربہ کریں گے تو ساری ابدیت اُس کی ذات کے بارے میں ہماری حیرت، محبت اور ستائش مسلسل طور پر جاری رہے گی اور ہم ہر لمحے اپنے علیمِ کُل خُدا کے بارے میں سیکھتے رہیں گے اور اُس کی ستائش کرتے رہیں گے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

خُدا کے علیمِ کُل ہونے سے کیا مُراد ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries