settings icon
share icon
سوال

خُدا کے قادرِ مطلق ہونے سے کیا مُراد ہے؟

جواب


قادرِ مطلق کے لیے استعمال ہونے والی انگریزی اصطلاح Omnipotent ہے ۔ یہ ایک مرکب لفظ ہے جس میں Omni کے معنی ہیں "تمام" اور Potent کے معنی ہیں "قدرت"۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ خُدا omniscient یعنی علیمِ کُل (سب کچھ جاننے والا) اور Omnipresent یعنی حاضرو ناظر ہے۔ پس اِس سب کی روشنی میں اگر خُدا لا محدود ہے اور ہر ایک چیز پر اُسکی حاکمیت ہے جو کہ حقیقت میں ہے بھی جیسا کہ ہم جانتے ہیں، تو پھر خُدا لازمی طور پر قادرِ مطلق یعنی ساری قدرت رکھنے والا بھی ضرور ہے۔ خُدا ہر ایک چیز پر ہر ایک دور میں اور ہر ایک طریقے سے قدرت رکھتا ہے۔

ایوب اپنی کتاب کے 42 باب 2آیت میں خُدا کی قدرت کے بارے میں بات کرتا ہے: "مَیں جانتا ہوں کہ تُو سب کچھ کر سکتا ہے اور تیرا کوئی اِرادہ رُک نہیں سکتا۔" یہاں پر ایوب خُدا کے سبھی منصوبوں کی تکمیل کے لیے اُس کی غالب قدرت کے موجود ہونے کا اقرار کر رہا ہے۔ خُدا کی طرف سے موسیٰ کو بھی یاد دلایا گیا کہ اسرائیل کے حوالے سے خُدا کے جتنے بھی منصوبے ہیں اُن کی تکمیل کے لیے خُدا ساری قدرت کا مالک ہے: "خُداوند نے مُوسیٰ سے کہا کیا خُداوند کا ہاتھ چھوٹا ہو گیا ہے؟ اب تُو دیکھ لے گا کہ جو مَیں نے تجھ سے کہا ہے وہ پُورا ہوتا ہے یا نہیں۔"

جس قدر زیادہ واضح طور پر ہم خُد اکی قدرت کو تخلیق کے عمل میں دیکھتے ہیں اُتنا واضح ہم اُسے کہیں بھی اور نہیں دیکھتے۔ خُدا نے مختلف چیزوں کے حوالے سے حکم دیا کہ "ہو جائے۔۔۔ " اور جیسا اُس نے حکم دیا تھا ویسا ہی ہو گیا (پیدایش 1 باب 3، 6، 9آیات)۔ انسان کو چیزوں کو بنانے کے لیے بہت زیادہ مواد اور مختلف طرح کے اوزار چاہیے ہوتے ہیں، خُدا نے محض اپنے منہ سے کلام کیا اور اُس کے کلام کی قدرت سے ہر ایک چیز نیست میں سے تخلیق ہو گئی۔ "آسمان خُداوند کے کلام سے اور اُس کا سارا لشکر اُس کے مُنہ کے دَم سے بنا " (33 زبور 6آیت)۔

خُدا کی قدرت کو اُس کی ساری تخلیق کے قیام و استحکام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر ہماری ہر ایک ضرورت جیسے کہ خوراک، لباس ، مکان وغیرہ کے لیے ہمیں خُدا کی دستگیری حاصل نہ ہو تو ہر ایک چیز تباہ ہو جائے، وہ تمام وسائل جن کی خود بخود تجدید ہوتی رہتی ہے، اُن کو اُسی خُدا نے استحکام دے رکھا ہے جو تمام جانداروں اور تمام انسانوں کو استحکام دینے والا خالق ہے (33 زبور 6آیت)۔ سمندر جس نے زمین کے زیادہ تر حصے کو ڈھانپا ہوا ہے اور جس کے سامنے ہم بالکل بے بس ہیں، اگرخُدا نے اُس کی حدوں کو مقرر نہ کیا ہوتا تو وہ ہمیں تباہ و برباد کر دیتا (ایوب 38باب8-11آیات)۔

اپنی قدرت میں ہی سے خُدا اِس دُنیا کی حکومتوں اور قوموں کے رہبروں کو اخیتار دیتا ہے (دانی ایل 2باب 21آیت)، اور وہ اپنی قدرت سے ہی اپنے پاک منصوبوں کے مطابق اُنہیں کچھ کام کرنے سے باز رکھتا ہے جبکہ کچھ کام کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ شیطان اور اُس کی بدرُوحوں کے مقابلے میں خُدا کی قدرت اور طاقت لا محدود ہے۔ شیطان کی طرف سے ایوب پر جو حملہ کیا گیا وہ ایک خاص حد تک محدود تھا۔ خُدا کی لا محدود قدرت کی وجہ سے شیطان پر پابندیاں عائد تھیں (ایوب 1 باب 12آیت؛ 2 باب 6آیت)۔ خُداوند یسوع مسیح پیلاطس کو یاد دلاتا ہے کہ اگر اُسے اوپر سے یعنی ساری قدرت والے خُدا کی طرف سے نہ دیا جاتا تو اُس کا یسوع پرکوئی اختیار نہیں تھا (یوحنا 19 باب 11آیت)

قادرِ مطلق ہونے کی بدولت خُدا ہر وہ کام کر سکتا ہے جو اُس کی پاک فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ کچھ ایسے کام ہیں جو خُدا نہیں کر سکتا، اور یہ وہ کام ہیں جو اُس کی پاک فطرت کے خلاف ہیں۔ مثال کے طور پر گنتی 23 باب 19آیت؛ ططس 1 باب 2آیت اور عبرانیوں 6 باب 18آیت بیان کرتی ہے کہ خُدا جھوٹ نہیں بول سکتا۔ خُدا جھوٹ اِس لیے نہیں بول سکتا کیونکہ جھوٹ بولنا اوراُس کی اخلاقی کاملیت کے خلاف ہے۔ اِسی طرح سے ، اگرچہ وہ ساری قدرت والا ہے اور وہ بدی سے نفرت کرتا ہے پھر بھی اپنے پاک اور کامل منصوبوں کے تحت وہ اِس دُنیا کے اندر بدی کو ہونے دیتا ہے۔ بہت سارے بُرے حادثات و واقعات کے ذریعے سے بھی وہ اپنے خاص مقاصد اور منصوبوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے کہ جب سب سے بڑی بُرائی اِس دُنیا پر ہوئی اور خُدا کا کامل، مُقدس اور بے عیب برّہ نسلِ انسانی کی نجات کے لیے قتل کر دیا گیا تو اُس سے خُدا نے پوری دُنیا کے لیے ابدی نجات کو مہیا کر دیا۔

مجسم خُدا ہونے کے ناطے خُداوند یسوع مسیح بھی قادرِ مطلق ہے۔ اُس کی قدرت کو اُن سبھی معجزات میں دیکھا جا سکتا ہے جو اُس نے کئے جیسے کہ بہت سارے بیماروں کو شفا بخشنا، پانچ ہزار لوگوں کو کھانا کھلانا (مرقس 6 باب 30-44آیات)، طوفان کو تھما دینا (مرقس 4 باب 37-41آیات)۔ اُس کی قدرت کا زبردست مظاہرہ لعزر اور یائیر کی بیٹی کو مُردوں میں سے زندہ کرنے میں دیکھا جا سکتا ہے (یوحنا 11 باب 38-44آیات؛ مرقس 5 باب 35-43آیات)، یہ مثال یسوع مسیح کے زندگی اور موت پر اختیار کوظاہر کرتی ہے۔موت ہی وہ حتمی مقصد اور انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے جس کو تباہ کرنے کے لیے (1 کرنتھیوں 15 باب 22آیت؛ عبرانیوں 2 باب 14آیت) اور انسان کو خُدا کے ساتھ درست تعلق میں باندھنے کے لیے یسوع اِس دُنیا میں آیاتھا۔ خُداوند یسوع مسیح نے بڑے واضح طور پر بتایا تھا کہ اُسے اپنی جان کو دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پھر واپس لے لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حقیقت اُس نے اُس وقت بیان کی جس وقت وہ مجازی معنوں میں ہیکل کے بارے میں بات کر رہا تھا (یوحنا 2 باب 19آیت)۔ اُس کے پاس یہ قدرت تھی کہ جس وقت اُسے گرفتار کیا جا رہا تھا یا جب اُس پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا وہ آسمان سے بارہ تمن فرشتوں کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا سکتا تھا (متی 26 باب 53آیت)، لیکن پھر بھی اُس نے بڑی حلیمی و عاجزی کے ساتھ اپنے آ پ کو دوسروں کے لیے دے دیا۔

ابھی یہاں پر بہت بڑا بھید یہ ہے کہ خُدا اپنی اِس قدرت کو اُن ایمانداروں کے ساتھ بھی بانٹ سکتا ہے جو یسوع مسیح کے وسیلہ سے اُس کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ پولس رسول بیان کرتا ہے کہ " مگر اُس نے مجھ سے کہا کہ میرا فضل تیرے لیے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پُوری ہوتی ہے ۔ پس مَیں بڑی خُوشی سے اپنی کمزوری پر فخر کروں گا تاکہ مسیح کی قدرت مجھ پر چھائی رہے "(2 کرنتھیوں 12 باب 9آیت)۔ ہماری ذات اور زندگی میں خُدا کی قدرت اُس وقت واضح نظر آتی ہے جب ہماری کمزوریاں انتہا سے زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ " اُس قدرت کے موافق جو ہم میں تاثیر کرتی ہے ہماری درخواست اور خیال سے بہت زِیادہ کام کر سکتا ہے " (افسیوں 3 باب 20 آیت)۔ یہ خُدا کی قدرت ہی ہے جو ہمارے تمام گناہوں کے باوجود ہمیں اُس کے فضل میں قائم رکھے رہتی ہے (2 تیمتھیس 1 باب 12آیت)۔ اوراپنی قدرت کے وسیلے سے ہی وہ ہمیں گرنے سے بچائے رکھتا ہے (یہوداہ 24 باب)۔ ابدیت تک آسمان کے کُل لشکر اُس کی قدرت کا اعلان کریں گے (مکاشفہ 19 باب 1 آیت)۔ کاش یہی ہماری مسلسل دُعا ہو!

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

خُدا کے قادرِ مطلق ہونے سے کیا مُراد ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries