settings icon
share icon
سوال

ایک مسیحی کو منطق کو کس طرح سے دیکھنا چاہیے ؟

جواب


منطق حقائق کےتجز یےکے ذریعے سے سچائی کو دریافت کرنے کی سائنس ہے، اور یہ براہِ راست (استنباطاً/قیاسی طور پر) بھی ہو سکتا ہے یا پھر بالواسطہ(استدلالی) طور پر بھی ہو سکتا ہے۔ منطق پیش کردہ مفروضات کو لیتا، اُن کے باہمی تعلق کو دیکھتا، پہلے سے معلوم شُدہ حقائق کے ساتھ اُن کا موازنہ کرتا ہے اور پھر ایک ایسے نتیجے پر پہنچتا ہے جو پہلےسے نامعلوم حقائق کی نشاندہی کرتا ہے۔ منطق اعداد کی بجائے تصورات کا ریاضی ہے۔ یہ تصورات کے درمیان تعلق کی شناخت کرتا ہے۔

‏منطق اُن فطری قوانین/اصولوں میں سے ایک معلوم ہوتا ہے جنہیں خُدا نے کائنات کی تخلیق کے وقت نافذ کیا تھا۔ پھر خُدا نے بنی نوع انسان کو ایک ذہین /ذی شعور مخلوق کے طور پر استدلال کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا۔ خُدا کی تخلیق ہونے کے باعث منطق ایک اچھی چیز ہے جسے جب پورے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ خُدا کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ بد قسمتی سے منطق کو غلط طریقے سے استعمال کرنا کافی آسان ہے۔ ‏

منطق کی سائنس تصورات کے نسبتی فارمولے کے متعلق ہے۔ جس طرح ریاضی میں اعداد کے ساتھ کیا جاتا ہے، ویسے ہی منطق کے اندر تصورات کو لیکر اُن پر ایسے فارمولوں کا اطلاق کیا جاتا ہے جن کا تعلق دوسرے تصورات کے ساتھ ہوتا ہے۔ اِن فارمولوں کی بنیادی باتوں کو سمجھنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ موجودہ طور پر دلائل اکثر جذبات سے پُر ہوتے ہیں جو کہ بات چیت میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایک مفید حل کی طرف جانے سے روک سکتے ہیں۔ جذبات سچائی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اکثر سچائی مغالطے / ‏‏fallacy کے ذریعے سے چھپ جاتی ہے، مغالطہ جھوٹے منطق اور گمراہ کن استدلال کی بنیاد پر پیش کردہ دلیل ہوتی ہے۔ مغالطہ گفتگو کے معاملے میں ایک غنڈہ گردی کا حربہ ہے اور یہ کبھی بھی سود مند بات چیت کا باعث نہیں ہو سکتا۔

منطق عملی معنوں میں فارمولے اور حقائق دونوں ہی کو استعمال کرتا ہے۔ فارمولے تصورات و بیانات کے اندر تعلقات مہیا کرتے ہیں ، لیکن فارمولے کا تجزیہ کرنے کے لیے بنیاد خیالات دستیاب ہونے چاہییں۔ اگرچہ انتہائی بنیادی مفروضوں سے نسبتیت کو دور کیا جا سکتا ہے، لیکن زیادہ تر لوگ اب بھی تجرباتی شواہد پر انحصار کرتے ہیں – یعنی اُس ڈیٹا پر جو اُنہوں نے اپنے حواس سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ایسے بیانات بڑے اعتماد کے ساتھ دیتے ہیں کہ "مَیں موجود ہوں" اور "میز موجود ہے"۔ منطق اِس طرح کے اعدادو شمار لیتا اور پھر اُن کے ذریعے سے مزید سچائی کو حاصل کرتا ہے۔منطقی بیان یہ ہے کہ "ہر وہ چیز جس کا کبھی نہ کبھی آغاز ہوتا ہے وہ کسی اور چیز کی بدولت وجود میں آتی ہے۔"اِس کا مزید تجزیہ مزید سچائیوں کی طرف لے جاتا ہے، جیسے کہ "خُدا موجود ہے۔"

بد قسمتی سے بہت سارے باحث نا دانستہ طور پر مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی دلیل یا بیان کا آغاز بالکل شروع سے نہیں کرتے۔ یعنی وہ ایک پہلے سے قیاس کردہ اور غیر ثابت شُدہ تصور کو ایک حقیقت کے طور پر کھڑا ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ ارتقاء پسند اپنے دلائل کی بنیاد کے طور پر فطرتی ارتقاء سے آغاز کرتے ہیں کیونکہ وہ معجزات کے امکان پر ایمان نہیں رکھتے۔ بہت سارے مذاہب اِس بات کو رَد کرتے ہیں کہ یسوع مجسم خُدا ہے کیونکہ وہ غناسطیت(جسم/مادہ بُرا ہے، رُوح اچھی ہے) سے اپنی دلیل کا آغاز کرتے ہیں ۔ لا دین/سیکولر ازم کے حامی جو اِس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مذہب موت کے خوف کا جبلی رَد عمل ہے اپنی دلیل کو اِس مفروضے سے شروع کرتے ہیں کہ خُدا موجود نہیں ہے۔

سچی بات یہ ہےکہ زیادہ تر لوگ اپنے عقیدے کے برعکس کسی اور چیز پر یقین کرنے کے لیے منطق سے زیادہ نمایاں طور پر متاثر نہیں ہونگے۔ عام طو ر پر جذبات منطق پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگرچہ نہ تو یسوع اور نہ ہی اُس کے رسولوں کے لیے منطق کوئی انجانی چیز تھی، لیکن یہ اُن کی خدمت میں اُن کا بنیادی آلہ نہیں تھا۔ جس وقت پطرس کہتا ہے کہ " جو کوئی تم سے تمہاری اُمّید کی وجہ دریافت کرے اُس کو جواب دینے کے لئے ہر وقت مُستعد رہو " (1پطرس 3باب15 آیت)۔ تو یہاں پر اُس کا مقصدخُدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے آنٹولوجیکل/علمِ موجودات/وجودیات سے شروع کرنا نہیں تھا، بلکہ اُس کا مقصد تھا کہ ہم خُدا کے ساتھ اپنے موجودہ تعلقات کی کہانی اور اپنی آئندہ اُمید کے لیے تیار رہیں۔ کوئی بھی شخص جو اپنے عقائد کی بنیاد جذبات پر رکھتا ہےوہ کبھی بھی منطقی گفتگو نہیں کر سکے گا۔ ایک تربیت یافتہ اپولوجسٹ کے ہاتھوں میں منطق ایک بہت ہی طاقتور آلہ ہوتا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ مسیحی زندگی کے "تجرباتی ثبوت" بھی اُسی قدر قائل کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہم دُنیا کا نور ہیں (متی 5باب 14 آیت)؛ تاریکی نور کو پسند نہیں کرے گی، لیکن وہ کبھی بھی نور کے وجود کا انکار نہیں کر سکتی۔ " سب باتوں میں اپنے آپ کو نیک کاموں کا نمُونہ بنا ۔ تیری تعلیم میں صفائی اور سنجیدگی۔اور اَیسی صحت کلامی پائی جائے جو ملامت کے لائِق نہ ہو تاکہ مُخالِف ہم پر عیب لگانے کی کوئی وجہ نہ پا کر شرمندہ ہو جائے " (ططس 2باب7-8 آیات)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

ایک مسیحی کو منطق کو کس طرح سے دیکھنا چاہیے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries