settings icon
share icon
سوال

بائبل مُقدس ایک اچھا طالب علم ہونے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

جواب


کلامِ مُقدس کی ایک پاک اور راستباز زندگی گزارنے کی دعوت کا اطلاق جس طرح سے مسیحیوں پر ہوتا ہے اُسی طرح اِس کا اطلاق طالب علموں پر بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ کلسیوں 3باب23 آیت کو غلاموں کے لیے لکھا گیا تھا، لیکن اِس اصول کے اندر طالب علموں کے لیے بھی اُتنی ہی سچائی ہے جتنی کہ کسی بھی ایسے شخص کے لیے ہے جس کے سپرد کوئی اہم کام ہو: " جو کام کرو جی سے کرو ۔ یہ جان کر کہ خُداوند کے لئے کرتے ہو نہ کہ آدمیوں کے لئے "۔

ہمارا خُداوند ایک اچھا طالب علم ہونے کی مثال فراہم کرتا ہے۔ لوقا خُداوند یسوع کے بچپن کا خلاصہ ایک آیت کےاندر کرتا ہے : " اور یِسُو ع حِکمت اور قد و قامت میں اور خُدا کی اور اِنسان کی مقبولیّت میں ترقّی کرتا گیا " (لوقا 2باب52 آیت)۔ خُداوند یسوع نے انسانی طور پر جو بھی رسمی تعلیم حاصل کی اُس نے اُس کے جواب میں ترقی ہی کی۔ اُس نے سیکھا-لہذا سیکھنا اور ترقی کرنا ہر ایک طالبعلم کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔

کلامِ مُقدس کے اندر طالب علموں کے بارے میں چند مخصوص حوالے بھی شامل ہیں جن سے ہم سیکھ سکتے ہیں۔ متی 10باب24 آیت میں خُداوند یسوع کے الفاظ بیان کرتے ہیں کہ " شاگرد اپنے اُستاد سے بڑا نہیں ہوتا "۔ خُداوند یسوع نے یہ بات اپنے شاگردوں کو ایذا رسانی کے بارے میں خبردار کرنے کے تناظر میں کہی تھی۔ خُداوند یسوع سے حسد کیا گیا اور اُسے بدنام کیا گیا، شاگردوں سے بھی ایسا کیا جائے گا۔ لیکن خُداوند یسوع کی اِس بات سے ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ ایک اچھا طالب علم ہونے میں اُستاد کے اختیار کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔ وہ شاگرد جو اپنے اُساتذہ کا بہت کم احترام کرتے ہیں یا جو یہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ "اصول و قواعد مجھ پر لاگو نہیں ہوتے" وہ اپنی سیکھنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

ایک اور حوالے میں خُداوند یسوع نے کہا ہے کہ " شاگرد اپنے اُستاد سے بڑا نہیں بلکہ ہر ایک جب کامِل ہُوا تو اپنے اُستاد جیسا ہو گا " (لوقا 6باب40 آیت)۔ خُداوند یسوع دوسروں کی عیب جوئی کرنے اور اندھوں کی طرف سے اندھوں کو راہ دکھانے کی بات کررہا تھا۔ لیکن اِن الفاظ کا ایک اطلاق یہ بھی ہے کہ طالب علموں کو اپنے اُساتذہ کا انتخاب بڑے احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے، کیونکہ تربیت فطری طور پر طالب علم کی طرف سے اپنے اُستاد کی تقلید کا سبب بنتی ہے۔

ایک اچھا طالب علم ہونے کا ایک اور بائبلی اصول خود ضبطی ہے۔ امثال کی کتاب ہمیں ہدایت دیتی ہے کہ سیکھنے کے عمل میں اپنے رویوں اور اپنے اقدامات کو قابو میں رکھیں۔ امثال 2 باب کی روشنی میں ہمیں حکمت کی طرف کان لگانے اور فہم کی طرف دِل لگانے (2-3 آیات)، حکمت کی قدر کسی خزانے کی طرف کرنے (4 آیت)، خُداوند سے مدد حاصل کرنے (6-8 آیات) اور حکمت کی بدولت سمجھدار بننے (12-15 آیات) کی ضرورت ہے۔

کُل وقتی طلباء بنیادی طور پر اپنے اساتذہ کے "ملازموں" کی طرح ہوتے ہیں اور وہ اپنے سکول میں تعلیمی سرگرمی کو اپنی ملازمت پر کئے گئے کام کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ مالی طور پر معاوضہ حاصل کرنے کی بجائے طلباء کو علم اور مہارت کی شکل میں معاوضہ ملتا ہے۔ اپنے اسکول کے اندر تعلیمی دور کو اِس طرح سے دیکھنے کے ذریعے ایک طالب علم کو خُدا کی طرف سے بتائے گئے اصولوں کو تعلیمی کام کے دوران عمل میں لانا چاہیے: ایک اچھا طالب علم ذمہ داری، انحصار، پھرتی، جانفشانی، برداشت اور پہل کرنے کا مظاہرہ کرے گا۔

یقیناً کبھی کبھی ایک اچھا طالب علم ہونے اور اچھے گریڈ حاصل کرنے میں فرق ہوتا ہے ، اور کسی کا رپورٹ کارڈ ہمیشہ کسی کے سیکھنے کی مقدار کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔ ایسے بہت سارے اچھے طالب علم ہیں جو بد قسمتی سے ناقص گریڈ حاصل کرتے ہیں اور ایسے کم اچھے طلباء بھی ہیں جو اچھے گریڈ حاصل کر لیتے ہیں۔ ایک اچھا طالب علم ہونا اعلیٰ عہدیداروں کے ماتحت ہونے، خود نظمی و خود ضبطی کا مظاہرہ کرنے، اپنے کاموں کو خُدا کی طرف سے بیان کردہ عملی اخلاقیات کے دائرہ کار میں کرنے اور حکمت حاصل کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ سب چیزیں ایک پاک اور با حکمت زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہیں جس سے خُداوند کے نام کو جلال ملتا ہے۔

ہم سب کو خُدا کے کلام کا اچھا طالب علم ہونا چاہیے کیونکہ " ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے تعلِیم اور اِلزام اور اِصلاح اور راست بازی میں تربِیّت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے" (2 تیمتھیس 3باب16 آیت) اور خُدا کے کلام کو ذہین نشین کرنا اور اُس کا اپنی زندگی پر اطلاق کرنا ہمیں گناہ سے روک سکتا ہے (119 زبور 7-11 آیات)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل مُقدس ایک اچھا طالب علم ہونے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries