settings icon
share icon
سوال

بائبل عمر کے بڑھنے/بوڑھے ہونے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

جواب


بائبل عمر کے بڑھنے اور بوڑھے ہونے کو بالکل معمول کی چیز اور اِس دُنیا کے اندر زندگی کا ایک فطری حصہ مانتی ہے۔ عمر بڑھنےا ور بوڑھا ہونے کے ساتھ عزت و احترام منسلک ہے کیونکہ بوڑھے ہونے کے ساتھ حکمت اور تجربے میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ "سفید سرشوکت کا تاج ہے۔وہ صداقت کی راہ پر پایا جائے گا" (امثال 16 باب31آیت، مزید دیکھئے امثال 20باب29آیت)۔ خُدا چاہتا ہے کہ ہم اِس بات کو یاد رکھیں کہ زندگی مختصر ہے اور جوانی کی خوبصورت جلد جاتی رہتی ہے (امثال 31باب30آیت؛ 1 پطرس 1باب24آیت)۔

بوڑھے ہونے کے سوال کو بالآخر زندگی کے معنی اور اُس میراث کے تصور سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جو ہم اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں۔ واعظ کی کتاب میں سلیمان بوڑھے ہونے اور اُس سے متعلقہ معاملات پر ایک دانشمندانہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

ہم "حالیہ طور پر جینے" کے رجحان کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں، لیکن اِس نقطہ نظر کا حتمی باطل پن ہی واعظ 1-7 ابواب کا عنوان ہے۔ جیسے جیسے لوگوں کی عمر بڑھتی ہے تو وہ اپنی موت کی طرف بڑھنے کے اثرات کو محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کے مسلسل طور پر کم ہوتے ہوئے وسائل کو ایسے منصوبوں میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن کی نظر میں زندگی کے اندر دیرپا معنی دینے کا وعدہ کرتے محسوس ہوتے ہیں، خاص طور پر ایک پائیدار میراث میں جہاں اُن کے "نام" کو قائم رکھنے کی اُمید ہوتی ہے (واعظ 2 باب) ۔ بد قسمتی سے کوئی بھی اِس بات کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا کہ کونسے منصوبوں کی اقدار دیرپا اور زیادہ اہمیت کی حامل ہوں گی (واعظ 3باب1-15آیات) اور یہ چیز عام طور پر زندگی کے اختصار اور اِس دُنیا میں ظاہری نا انصافی پر مایوسی اور طرح طرح کے وہموں کے کئی ایک سلسلوں کا باعث بنتی ہے(واعظ 3باب16آیت تا 7باب29آیت)۔

‏‏اس بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ کہ اس طرح کی سرگرمیوں میں اطمینان ہمیشہ لمحہ بھر کے لئے ہوتا ہے، سلیمان کی امید یہ ہے کہ لوگ مرنے سے پہلے اپنے خدا کی طرف سے دئیے گئے "حصے" یا الاٹمنٹ کے استعمال میں سمجھدار ہو جائیں گے (واعظ 8-12 ابواب؛ مزید دیکھئے 90 زبور 12آیت)۔ یہ حکمت "وقت اور فہم و ادراک " کے بارے میں ہمارے شعور یا آگاہی کے تعلق سے بڑھتی ہے –اِس زندگی کے اختصار اور ظاہری نا انصافی کے سامنے ہمیں الٰہی نقطہ نظر کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ (واعظ 3باب15 -17 آیات؛ 8باب5-8 ، 12-15آیات؛ 9باب11-12آیات؛ 11 باب 9آیت؛ 12 باب 14آیت)۔ اِن اقتباسات میں وقت کے عبرانی تصور میں موقع (موقع آنے پر مصلحت سے کام لینے کا صحیح وقت) اورزندگی کے اختصار(تمام مواقع ختم ہونے سےصرف پہلے کے وقت) کو یکجا کیا گیا ہے۔ ان ہی حوالہ جات میں سمجھ بوجھ کا عبرانی تصور زندگی میں ہمیں خُدا کی طرف سے دئیے گئے "حصے" کے استعمال میں مکمل آزادی کا تصور دیتا ہے، بالکل ویسے جیسے ہماری خواہشات ہمیں جہاں لیکر جاتی ہیں، لیکن پھر بھی اُس کے ساتھ اُس ذات کے سامنے جوابدہی منسلک ہے جس کی طرف سے ہمیں خاص حصے عطا کئے گئے ہیں۔ اِن تصورات کے ہم منصب خیالات کو دس کنواریوں اور اُن کی صلاحیتوں (متی 25 باب)، دوبیٹوں (متی 21باب28-32آیات) اور معاملہ شناس منتظم (لوقا 16باب1-13آیات)کی تماثیل میں واضح طور پر دیکھاجا سکتا ہے جن کی خُداوند یسوع نے خوبصورت تصویرکشی کی ہے۔

عمر کے بڑھنے یا بوڑھے ہونے کے سب سے زیادہ پریشان کن پہلوؤں میں سے ایک –خاص طور پر ایسے معاشروں میں جو نا ہموار انفرادیت کو بہت زیادہ قابلِ قدر قرار دیتے ہیں –یہ ہے کہ جیسے جیسے زندگی کا دورانیہ بڑھ رہا ہے ذہنی صلاحیتوں کا انحطاط زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات انتہائی غیر منصفانہ معلوم ہوتی ہے کہ اِس قدر مصیبت زدہ لوگوں سے اُن کی فکری، جذباتی اور سماجی زندگی چھین لی جائے جبکہ اُن کے جسمانی بدن ابھی تک زندہ ہیں۔ الزائمر جیسا دماغی مرض خصوصی طور پر ایک ایسی گولی کی مانند ہےجسے نگلنا بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ اِس کے ہو جانے کی وجہ نامعلوم ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ یہ صحت کی کسی خراب عادت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ذہن کو متحرک کرنے اور جسمانی سرگرمی میں مسلسل فعال شمولیت کے ذریعے سے الزائمر کی پیش رفت کو جزوی طور پر روکا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا کافی زیادہ سخت اور مشکل کام ہے۔

واعظ کی کتاب کا مصنف اِس پریشان کن نا انصافی کا اعتراف کرتا ہے (واعظ 7باب15-18آیات؛ 8باب14 آیت تا 9باب3 آیت)، لیکن پھر بھی وہ ہمارے لیے ایسی حکمت کی پیشکش کرتا ہے جو اِس معاملے سے نمٹنے میں ہماری مدد کرتا ہے جس میں"وقت اور فہم و ادراک" کے تصورات شامل ہیں ۔ انسانی حالت کے بارے میں ہماری ہر طرح کی نا گزیر مایوسی کے ساتھ جس کا تعلق ہمارے آفاقی بگاڑ ، غیر یقینی اور موت کے ساتھ ہے ، ہمارے لیے یہ یاد رکھنا حکمت کی بات ہوگی کہ تمام زندہ لوگوں کے لیے اُمید موجود ہے، کیونکہ ایک زندہ کتا بھی مُردہ شیر سے بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ زندہ کو معلوم ہے کہ وہ مریں گے، لیکن جو مر چکے ہیں اُن کے لیے کچھ بھی اجر نہیں ہے کیونکہ اُن کی یاد کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں اُن کی محبت، اُنکی نفرت اور اُنکا حسد بھی اب ختم ہو چکے ہیں۔ ابھی اِس زمین پر سورج کے نیچے کسی بھی چیز میں اُن کا کوئی حصہ نہیں ہے (واعظ 9باب4-6آیات)۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ خُدا کی طرف سے دئیے گئے حصے کے لیے جوابدہ ہیں سبھی لوگوں کو اپنی زندگی میں اُن تمام نعمتوں، صلاحیتوں ، حکمت اور مواقع سے جلد از جلد فائدہ اُٹھانا چاہیے –اِس سے پہلے کہ اُن کے لیے ایسا کچھ کرنے کا موقع ہی ختم ہو جائے، یا اِس سے پہلے کی نا گزیر کمزوری تمام مواقع کو ختم کر دے (9باب7-10آیات؛ 11باب9آیت تا 12باب7آیت)۔

واعظ کی کتاب کی طرف سے عمر کے بڑھنے یا بوڑھے ہونے کے حوالے سے زور یہ دیا جاتا ہے کہ زندگی کے معنی ہمارے خُدا کی طرف سے دئیے گئے مقصد میں پورے ہوتے ہیں، اور ہمارا مقصد صرف اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب ہم مسیح خُداوند میں اپنے خُدا کی طرف سے عطا کردہ حصے سے مستفید ہوتے ہیں اور وہ حصہ ہے موعودہ مسیح یعنی خُد اکی طرف سے وعدہ کردہ نجات دہند۔ اگرچہ یہ حصہ دوسرے بہت سارے حصوں کے مقابلے میں کم منصفانہ لگ سکتا ہے، لیکن اِس کے معنی کا انحصار صرف آخری فیصلے پر ہی ہوگا، جب ہم اپنی میراث پائیں گے (واعظ 12باب14آیت؛ بالموازنہ 2 کرنتھیوں 5باب10آیت)۔ اُس دِن ہم خُدا کو اُسی کی طرف سے عطا کردہ انعامات کے تناظر میں نمایاں طور پر منصف دیکھیں گے، اِس سب سے قطع نظر کہ اِس زندگی کے اندر چاہے ہمارا حصہ کس قدر غیر منصفانہ اور غیر مساوی طور پر تقسیم کیا گیا ہو۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل عمر کے بڑھنے/بوڑھے ہونے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries