settings icon
share icon
سوال

عہدی علمِ الہیات کیا ہے؟

جواب


عہدی علمِ الہیات (Covenant Theology) کیونکہ کلامِ مقدس کی تفسیر کے لئے محض ایک طریقہ کارہے۔ اس لیے یہ عقیدے کے منظم نظام کے مفہوم کے لحاظ سے "علمِ الہیات" نہیں ہے۔ اِس کا موازنہ عام طور پر بائبل کے ایک اور تفسیر ی طریقہ جسے نظریہ ادواریت کہا جاتا ہے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ نظریہ ادواریت کے لیے انگریزی اصطلاحات "Dispensationalismیا Dispensational Theology"بھی استعمال کی جاتی ہیں، فی الحال امریکی انجیلی عقائد میں یہ بائبل کا سب سے زیادہ مقبول ترین تفسیری طریقہ ہے اور اِس کی مقبولیت کا سلسلہ19ویں صدی کے آخری نصف حصےسے شروع ہو کر 21ویں صدی میں بھی چلا آرہا ہے۔ بہرحال عہدی علمِ الہیات اصلاحی دور سے ہی پروٹسٹنٹ کلیسیاکے لیے ایک بڑا مضمون رہا ہے اور یہ ایک ایسا نظام ہے جس کو اصلاحی یا کیلون ازم تحریک کے زیادہ تر لوگ پسند کرتے ہیں۔

نظریہ ِ ادواریت کی نظر سے دیکھیں تو کلامِ مقدس کے سات منقسم حصوں یا ادوار کا ایک سلسلہ سامنے آتا ہے ( ہر حصے یا دور کوایک ایسے طریقے کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جس کو خدا نے نجات کے تمام تاریخی عرصے میں بنی نو ع انسان اور فطرت سے نمٹنے کےلیے استعمال کیا ہے ) دوسری جانب عہدی علم ِ الہیات کلام ِ مقد س کوعہد کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ عہدی علمِ الہیات دو بڑے ترین عہدوں کا بیان کرتا ہے ۔ (1) عہدِ اعمال اور(2) عہدِ فضل۔ بعض اوقات ایک تیسرے عہد کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جِسے عہدِ نجات کہا جاتا ہے جو منطقی طور پر دو اور عہدوں کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔ ہم یکے بعد دیگرے اِن تینوں عہود پر بات کریں گے۔ ایک بات کوہم ذہن میں رکھیں کہ بائبل میں بیان کردہ تمام عہد (مثلاً نوح ، ابرہام، موسیٰ اور داؤد کے ساتھ کئے گئے عہد اور نیا عہد) در اصل عہد ِ اعمال یا پھر عہدِ فضل کے لیے قلعہ بندی یا عملی اقدامات کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

آئیے عہدی علم ِ الہیات میں بیان کردہ عہود کی جانچ پڑتا ل کرتے ہیں ۔ اِ س عمل کی ابتدا عہدِ نجات سے کرتے ہیں جو منطقی طور پر دو مزید عہدوں کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔ عہدی علم ِ الہیات کے مطابق عہدِ نجات تثلیث کے تین اقانیم کے درمیان ایک عہد ہے جس کا مقصد انتخاب کرنا، کفارہ دینا اور چُنے ہوئے لوگوں کو نجات اور ابدی زندگی کے وسیلہ سے بچاناہے ۔ جیسا کہ ایک مقبول ماہرِ علمِ الہیات نے عہد ِ نجات کے بارے میں کہا ہےکہ"باپ اپنے بیٹے کے لئے ایک دُلہن کا انتخاب کرتا ہے"۔ اگرچہ کلامِ مقدس عہدِ نجات کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا تاہم کلامِ مقدس نجات کے منصوبے کی ابدی نوعیت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے (افسیوں1باب 3-14آیات ؛ 3باب 11آیت ؛ 2تھسلنیکیوں 2باب 13آیت؛ 2تیمتھیس1باب 9آیت؛ یعقوب 2باب 5آیت؛ 1پطرس 1باب 2آیت)۔ اِس کے علاوہ یسوع نے اکثر اپنے کام کو باپ کی مرضی کو پورا کرنے کے طور پر پیش کیا ہے (یوحنا 5باب 43،3آیات؛ 6باب 38- 40آیات؛ 17باب 4-12آیات)۔ اس بات میں کچھ شک نہیں کیا جا سکتا کہ خدا نے تخلیق کے شروع میں ہی چُنے گئے لوگوں کو نجات دینے کےلیے منصوبہ تیار کر لیا تھا؛ لہذا عہدِ نجات محض اِس ابدی منصوبے کو عہد کی زبان میں دستوری شکل دیتا ہے۔

اگر ہم نجات کو تاریخی نقطہ نظر سے دیکھیں تو عہد ِ اعمال کلام ِ مقدس میں سب سے پہلے نمبر پر نظر آیا ہے ۔ جب خُدا نے انسان کو خلق کیاتو اُسے باغِ عدن میں رکھا اور اُسے یہ حکم دیا کہ "تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا" (پیدایش 2باب 16- 17آیات )۔ اِس حکم میں ہم عہد کی زُبان کا اطلاق دیکھ سکتے ہیں۔ خُدا نے آدم کو باغ میں رکھا اور اُس سے اور اُس کی اولاد سے ابدی زندگی کا وعدہ کیا جب تک کہ وہ خُدا کے احکام کی فرمانبرداری کرتا ہے۔ زندگی فرمانبرداری کا اجر ہے اور موت نافرمانی کی سزا ہے۔ یہ عہد کی زُبان ہے۔

بعض علما عہدِ اعمال میں ایک اور عہد کی شکل دیکھتے ہیں جسے سردار اور رعایا/جاگیردار اور رعیت (Suzerain-Vassal) کا عہد کہا جاتا ہے۔ اِس عہد میں سردار/جاگیردار یا حکمران خراج کے بدلےرعایا کو برکات اور محافظت فراہم کرے گا۔ عہدِ اعمال کے معاملے میں خُدا (سردار/حکمران) انسان (رعایا، جس کی نمائندگی نسلِ انسانی کے سربراہ آدم نے کی) کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اُسے عہد کی شرائط کی فرمانبرداری (مثال کے طور پر تُو اُس درخت کا پھل نہ کھانا) کے بدلے ابدی زندگی اور برکات بخشے گا ۔اس سے ملتی جلتی شکل ہم موسیٰ کے وسیلہ سے اسرائیل کے ساتھ کیے گئے عہد میں بھی دیکھتے ہیں۔ اسرائیل نے کوہِ سینا پر خُدا کے ساتھ عہد باندھا۔ خُدا نے وعدہ کیا کہ اسرائیل کی طرف سے اس عہد کی فرمانبرداری کے بدلےنہ صرف وہ اُن کو وعدے کی سرزمین یعنی بحال شُدہ عدن (جہاں دودھ اور شہد بہتا ہے ) عطا کرے گا بلکہ اُن کے تمام دشمنوں کے خلاف اُس کی برکات اور محافظت اُن کے ساتھ رہیں گی۔ عہد کی خلاف ورزی کی سزا وعدےکی سرزمین سے بے دخل کیا جانا تھا (جو کہ 722 قبل از مسیح میں شمالی بادشاہت اور 586 قبل از مسیح میں جنوبی بادشاہت کے اسیر کئے جانے کی صورت میں سا منے آیا)۔

جب آدم عہدِ اعمال کو نبھانے میں نا کام ہو گیا تو خُدا نے تیسرا عہد تشکیل دیا جِسے عہدِ فضل کہا جاتا ہے۔عہدِ فضل میں خُدا گنہگاروں کو یسوع مسیح پر ایمان لانے کے وسیلہ سے ابدی زندگی اور نجات کی مفت پیشکش کرتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان گناہ میں مبتلا ہوا تو خدا نے فوراً عہدِ فضل کو قائم کیا۔خُدا نے پیدائش3باب 15 آیت میں "عورت کی نسل" کی پیشن گوئی کی۔ جہاں عہدِ اعمال مشروط ہے اور فرمانبرداری کے بدے برکات اور نافرمانی کے بدلے لعنت کا وعدہ کرتا ہےوہاں عہدِ فضل غیر مشروط ہے اور خُدا کے فضل کی بنیاد پر پوری طرح مفت قائم کیا گیا ہے۔ عہدِ فضل زمین کے معاہدوں کی قدیم شکل کی مثال پیش کرتا ہے جس میں بادشاہ آنے والے لوگوں کو زمین تحفے کے طور پر عنایت کرتا ہے اور اِس کے ساتھ کوئی شرط منسلک نہیں کرتا ۔ یہاں پر کوئی شخص یہ دلیل دے سکتا ہےکہ ایمان لانا عہدِ فضل کی شرط ہے۔ بائبل میں خُدا کے غیر مشروط فضل کے وصول کُنندہ کے لئے آخر تک وفادار رہنے کے لئے بہت سی نصیحتیں کی گئی ہیں لہذا حقیقی معنوں میں ایمان کو برقرار رکھنا عہدِ فضل کی شرط ہے۔ لیکن بائبل واضح طور پر سکھاتی ہے کہ نجات بخش ایمان بھی خُدا کی طرف سے پُر فضل تحفہ ہی ہے (افسیوں 2باب 8- 9آیات )۔

بائبل میں خُدا کی طرف سے مختلف لوگوں کے ساتھ کئے گئے متعدد غیر مشروط وعدوں میں ہم عہد ِ فضل کو دیکھ سکتے ہیں ۔ خُدا کا ابرہام سے کیا گیا وعدہ (کہ وہ ابرہام اور اُس کی نسل کا خُدا ہو گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے) عہدِ فضل کی توسیع ہے۔ داؤد کے ساتھ کیا گیا عہد (کہ داؤد کی نسل بادشاہ کے طور پر ابد تک حکومت کرے گی) بھی فضل کے عہد کی توسیع ہے۔ نیا عہد فضل کے عہد کا حتمی اظہار ہے کیونکہ خُدا اپنے احکام کو ہمارے دِلوں پر لکھتا ہے اور ہمارے گناہوں کو مکمل طور پر معاف کرتا ہے۔ جب ہم پُرانے عہد نامے کے اِن متعدد وعدوں پر نظر ڈالتےہیں تو ایک بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تمام وعدے یسوع مسیح کی ذات میں تکمیل پاتے ہیں ۔ ابرہام میں تمام قوموں کو برکت دینے کا وعدہ یسوع مسیح میں پورا ہوتا ہے ۔ داؤد بادشاہ کے ساتھ کیا گیا وعدہ کہ وہ خُدا کے لوگوں پر ابد تک بادشاہی کرے گا مسیح میں پورا ہوااور نیا عہد بھی واضح طور پر مسیح میں ہی پورا ہوتاہے ۔ یہاں تک کہ پُرانے عہد نامے میں بھی عہدِ فضل کے سراغ ملتے ہیں کیونکہ پُرانے عہد نامے کی تمام قُربانیاں اور رسومات ہمارے سردار کاہن مسیح کے نجات بخش کام کی جانب اشارہ کرتی ہیں (عبرانیوں8- 10ابوات )۔ لہذا پہاڑی وعظ میں مسیح یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ شریعت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہے (متی5 باب 17آیت)۔

ہم عہدِ فضل کو پُرانے عہد نامے میں بھی سرگرم عمل دیکھتے ہیں جب خُدا اپنے لوگوں کے بار بار گناہ کرنے کے باوجود اُن کو سزا نہیں دیتا ۔ اگرچہ موسوی عہد کی شرائط یہ (عہدِ اعمال کا اطلاق) تقاضا کرتی ہیں کہ خُدا اپنے لوگوں کی نافرمانی کے باعث اُن کی عدالت کرے۔لیکن پھر بھی خدا اپنے چنیدہ لوگوں کے ساتھ بڑے تحمل کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اور اکثر ایسی حالت اِس جملے کے ساتھ پیش ہوتی ہے کہ" خُد انے اپنے اُس عہد کو یاد کیا جو اُس نے ابرہام کے ساتھ کیا تھا" (2سلاطین 13باب 23آیت؛ 105زبور؛ یسعیاہ 29 باب22آیت ؛ 41باب 8آیت ) عہدِ فضل کو پورا کرنے کےخدا کے وعدےکو اگر دیکھا جائے تو (جو کہ تعریف کے لحاظ سے یک طرفہ عہد ہے)، اِس کی خاطر خُدااکثر عہدِ اعمال کو نافذ کرنے کے اپنے حق کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔

یہ عہدی علمِ الہیات کی مختصر سی وضاحت ہے اور اس بات کی بھی کہ عہد کے تعلق سے عہد ی علم ِ الہیات بائبل کی تفسیر پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے ۔ عہدی علمِ الہیات کے تعلق سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے آیا عہدِ فضل نے عہدِ اعمال کی جگہ لے لی ہے یا نہیں ۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو کیا جب سے پرانا عہد منسوخ ہو ا ہے تب سے عہد ِ اعمال بھی منسوخ ہو گیا ہے (عبرانیوں8باب 13آیت )؟ پُرانا (موسوی)عہد اگرچہ عہدِ اعمال کا اطلاق ہے لیکن یہ عہدِ اعمال نہیں ہے۔ عہدِ اعما ل کا تعلق باغِ عدن کے ساتھ ہے جب خُدا نے فرمانبرداری کے بدلے زندگی اور نافرمانی کے بدلے موت کا وعدہ کیا تھا ۔ عہدِ اعمال کی مزید وضاحت دس احکام میں کی گئی ہےجن میں خُدا فرمانبرداری کے بدلے زندگی اور برکات اور نافرمانی کے بدلے سزا اور موت کا دوبارہ وعدہ کرتا ہے۔ پُرانا عہد دس احکام میں مرتب اخلاقی قوانین سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پُرانے عہد میں خُدا کی پرستش کے بارے میں قانون اور اصول شامل ہیں۔ اِس میں شہری قانون بھی شامل ہیں جو مذہبی اور دنیاوی حکومت کے دوران بنی اسرائیل پر لاگو تھا ۔ پُرانے عہد نامے کے موعودہ مسیحا یسوع مسیح کے آنے کے ساتھ پُرانے عہد نامے کے بہت سے پہلو منسوخ ہو گئے ہیں کیونکہ یسوع نے پُرانے عہد کے تقاضوں اور قوانین کو پورا کر دیا(دوبارہ دیکھیں عبرانیوں 8- 10ابواب)۔ پُرانا عہد نامہ "اقسام اور سایوں/تشبیہات" کو پیش کرتا ہے جبکہ مسیح "اصل چیزوں" کو پیش کرتاہے (کُلسیوں 2باب 17آیت )۔ مسیح شریعت کو پورا کرنے آیا (متی5باب 17آیت )۔ جیسا کہ پُولس نےبیان کیا ہے کہ "کیونکہ خُدا کے جتنے وعدے ہیں وہ سب اُس میں ہاں کے ساتھ ہیں۔ اِسی لئے اُس کے ذریعہ سے آمین بھی ہوئی تاکہ ہمارے وسیلہ سے خُدا کا جلال ظاہر ہو " (2کرنتھیوں 1باب 20آیت)۔

تاہم اِس وجہ سے عہدِ اعما ل منسوخ نہیں ہواجیسا کہ اخلاقی شریعت میں مرتب ہوا ہے ۔ پُرانے عہد نامہ میں خدا نے اپنے لوگوں سے پاکیزگی کا مطالبہ کیا تھا (احبار 11باب 44آیت ) اور نئے عہد نامے میں ابھی بھی وہ اپنے لوگوں سے پاکیزگی کا مطالبہ کرتا ہے (1پطرس 1باب 16آیت )۔ لہذا ہم اب بھی عہدِ اعما ل کی شرا ئط پوری کرنے کے پابند ہیں۔ خوشخبری یہ ہے کہ پچھلے آدم یعنی ہمارے عہد کے سردار یسوع مسیح نے عہدِ اعمال کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کر دیا ہے اور یہ کامل راستبازی ہی ہے جس کی وجہ سے خُدا فضل کے عہد کو راستبازوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔رومیوں 5 باب 12- 21 آیات نسلِ انسانی کے دو وفاقی سربراہوں کے درمیان صورتحال کو بیان کرتی ہیں۔ آدم عدن میں نسلِ انسانی کو پیش کرتا ہے اوردیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اعمال کے عہد کو قائم رکھنے میں ناکام ہو گیا، اِس لئے اُسے اور اُس کی نسل کو گناہ اور موت میں دھکیل دیا گیا ۔ یسوع مسیح انسان کے نمائندہ کے طور پر کھڑا ہوا، بیابان میں اپنی آزمائش سے لے کر کلوری تک کے سارے راستہ میں اُس نے کامل طور پر اعمال کے عہد کو پورا کیا۔ اِس لئے پُولس رسول بیان کرتا ہے کہ "اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے" (1کرنتھیوں15 باب 22 آیت)۔

اختتام پر عہدی علمِ الہیات بائبل کے عہود کو یا تو اعمال کے عہد یا فضل کے عہد کے ظہوروں کے طور پر دیکھتی ہے۔ نجات بخش تاریخ کی ساری کہانی کواُس وقت بڑے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جب خُدا فضل کے عہد کو اُس کے آغاز کے مرحلے (پیدائش 3 باب 15آیت ) سے لے کر مسیح میں اُس کے حصولِ مقصد تک ظاہر کرتا ہے۔ اِس لئے عہدی علمِ الہیات بائبل پر نظر کرنے کا ایک مسیحی طریقہ کار ہے کیونکہ یہ پُرانے عہد نامے کو مسیح کے وعدے کے طور پر اور نئے عہد نامے کو مسیح میں تکمیل کے طور پر دیکھتا ہے۔ بعض لوگوں نے عہدی علمِ الہیات پر الزام لگایا ہے کہ یہ "تبادلاتی علمِ الہیات" (یعنی کلیسیا کے اسرائیل کی جگہ لینے کے عقیدے) کی تعلیم ہے۔ یہ بات بھی حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہے۔ادواریت کے برعکس عہدی علمِ الہیات اسرائیل اور کلیسیا کے درمیان زیادہ فرق نہیں دیکھتی ۔ پُرانے عہد نامے میں اسرائیل قوم خُدا کے لوگوں کے طور پر تشکیل پائی، اور کلیسیا (جو یہودیوں اور غیر قوموں سے بنی) نئے عہد نامہ میں خُدا کے لوگوں سے تشکیل پاتی ہے۔ دونوں مل کر خُدا کے لوگ یعنی ایک ہی گروہ بنا (افسیوں2 باب 11- 20آیات)۔ کلیسیا نے اسرائیل کی جگہ نہیں لی، کلیسیا اسرائیل ہے اور اسرائیل کلیسیا ہے (گلتیوں 6 باب 16آیت)۔ تمام لوگ جو ابرہام کی طرح ایمان کو استعمال کرتے ہیں وہ خُدا کے عہد کے لوگوں کا حصہ ہیں (گلتیوں3 باب 25- 29آیات)

عہدی علمِ الہیات کے متعلق اور بھی بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں، لیکن ذہن میں رکھنے والی اہم بات یہ ہے کہ عہدی علمِ الہیات بائبل کو سمجھنے کے لئے تفسیری کھڑکی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بائبل کو سمجھنے کا صرف یہی ایک طریقہ نہیں ہے۔عہدی علمِ الہیات اور ادواری علمِ الہیات میں بہت فرق ہے، اور بعض اوقات یہ دونوں نظریات کسی ایک بات ، خیال یا عقیدے کے بارے میں دو بالکل متضاد اطراف میں رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن دونوں مسیحی ایمان کی بنیادی تعلیم کا ساتھ دیتے ہیں: نجات صرف فضل سے ، صرف اور صرف مسیح پر ایمان لانے کے وسیلہ سےہے اور ہماری نجات سے صرف خُدا کے نام کو جلال ملتا ہے!

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

عہدی علمِ الہیات کیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries