settings icon
share icon
سوال

مَیں کس طرح اپنی مسیحی زندگی میں گناہ پر غالب آ سکتا ہوں؟

جواب


گناہ پر فتح یا غلبہ پانے کی ہماری کوشش میں مدد کرنے کے لیے بائبل مُقدس کئی ایک وسائل پیش کرتی ہے۔ اپنی اِس زمینی زندگی کے دوران ہم کبھی بھی مکمل طور پر گناہ پر غالب نہیں آ سکیں گے (1 یوحنا 1باب 8آیت) ، لیکن اِس کے باوجود ہماری زندگی میں ہمارا مقصد ہمیشہ یہی ہونا چاہیے۔ خُدا کی مدد کے ساتھ اور اُس کے کلام میں بیان کردہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہم بتدریج(درجہ بدرجہ) گناہ پر غالب آ سکتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسیح کے ہمشکل بنتے جاتے ہیں۔


بائبل مُقدس ہمارے گناہ پر غالب آنے کی کوشش میں مدد کرنے کے لیے جس پہلے ذریعے کا ذکر کرتی ہے وہ رُوح القدس ہے۔ خُدا نے ہمیں رُوح القدس عنایت کیا ہے تاکہ ہم مسیحی زندگی میں اُس کی مدد سے گناہ پر غلبہ پا سکیں۔ خُدا گلتیوں 5باب16-25 آیات میں جسم کے کاموں اور رُوح کے پھلوں میں موازنہ پیش کرتا ہے۔ اِس حوالے میں ہمیں رُوح کی ہدایت میں چلنے کی تلقین کی گئی ہے۔ سب ایمانداروں میں رُوح القدس بستا ہے لیکن یہ حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں خود کو مکمل طور پر رُوح القدس کے اختیار میں دیتے ہوئے رُوح میں چلنا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں جسمانی تحریک میں چلنے کی بجائے لگاتار رُوح القدس کی تحریک کو قبول کرتے ہوئے اُس کی مرضی کے مطابق چلنے کا انتخاب کرنا ہے ۔

رُوح القدس ایک ایماندار کی زندگی میں کیا فرق ڈال سکتا ہے اِس کا مظاہرہ ہم پطرس کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ اُس نے رُوح القدس سے معمور ہونے سے پہلے تین دفعہ خُداوند یسوع کا انکار کیا – حالانکہ اُس نے یسوع سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر جگہ اُس کی پیروی کرے گا اور اگر چاہے اُس کو اِس کے لیے اپنی جان تک بھی قربان کرنی پڑی تو ضرور کرے گا۔ لیکن رُوح القدس سے معمور ہونے کے بعد اُس نے عیدِ پنتکست کے روز یہودیوں سے سرعام بڑی دلیری کے ساتھ بات کی ۔

جب ہم رُوح القدس کی طرف سے ملنے والی تحریک کو رَد نہیں کرتے، رُوح کو نہیں بجھاتے (جیسا کہ 1 تھسلنیکیوں 5باب19آیت میں بیان کیا گیا ہے) اور اِس کی بجائے رُوح القدس سے معمور ہونے کی کوشش کرتے ہیں (افسیوں 5باب18-21آیات) تو اُس وقت درحقیقت ہم رُوح میں چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی شخص کس طرح رُوح القدس سے معمور ہو سکتا ہے؟ سب سے پہلے یہ انتخاب خُدا کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ ہم پرانے عہد نامے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ خُدا نے اُن مختلف کاموں کو سرانجام دینے کے لیے جو وہ کرنا چاہتا تھا مختلف لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر اُنہیں رُوح القدس سے معمور کیا (پیدایش 41باب38آیت؛ خروج 31باب 3آیت؛ گنتی 24باب 2آیت؛ 1 سموئیل 10باب 10آیت ؛ افسیوں 5باب 18-21آیات؛ اور کلسیوں 3باب 16آیت)۔ افسیوں 5باب18-21آیات اور کلسیوں 3باب 16آیت میں ہمیں یہ ثبوت ملتا ہے کہ جو اپنے آپ کو خُدا کے کلام سے بھر لیتے ہیں خُدا اُنہیں اپنے رُوح سے معمور کرنے کا انتخاب کرتا ہے۔ یہاں پر ہماری گناہ پر غلبہ پانے کے دوسرے وسیلے یا ذریعے کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔اگر گناہ وہ چیز ہے جو رُوح القدس کو رنجیدہ کرتا ہے اور کسی شخص کے رُوح سے معمور ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے تو پھرخُدا کی تابعداری وہ چیز ہے جو کسی شخص کی زندگی کے رُوح سے معمور ہونے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں یہ دُعا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم رُوح القدس سے معمور ہوں، خُدا کے کلام کو کثرت سے اپنے دِلوں میں بسنے دیں، (کلسیوں 3باب16آیت)اور خُدا کے حکموں کی تابعداری کرتے ہوئے اُس کی حضوری میں چلیں۔ یہ رویہ رُوح القدس کو ہمارے خیالات اور سبھی اعمال میں کام کرنے دیتا ہے۔

خُدا کا کلام یعنی بائبل مُقدس ہمیں سکھاتا ہے کہ خُدا نے ہمیں اپنا کلام اِس لیے بخشا ہے تا کہ ہم جو ایماندار ہیں ہر ایک نیک کام کرنے کے لیے تیار ہو جائیں (2 تیمتھیس 3باب 16-17آیات )۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم نے کیسے زندگی گزارنی ہے اور کس کس چیز پر ایمان رکھنا ہے، جب ہم کوئی غلط راستہ اپناتے ہیں تو یہ اُس حوالے سے حقیقت کو عیاں کرتا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ خُدا کا کلام ہمیں دوبارہ درست راہ پر جانے اور اُس درست راہ پر قائم رہنے میں بھی مدد کرتا کرتا ہے۔ عبرانیوں 4باب 12آیت بیان کرتی ہے کہ خُدا کا کلام زندہ اورموثر ہے ، اور یہ ہمارے دل و دماغ کی گہرائیوں میں اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاکہ ہمارے دل میں موجود گناہ کو جڑوں سے اُکھاڑے اور ہمارے دل اور رویے کے بد ترین گناہوں پر ہمیں غلبہ پانے میں مدد کرے۔ زبور نویس زبور 119 میں بیان کرتا ہے کہ خُدا کے کلام میں گہری کے ساتھ زندگی کو تبدیل کرنے کی قدرت پائی جاتی ہے۔ یشوع کو یہ بتایا گیا تھا کہ اگر وہ خوب کامیاب ہو کر اقبالمندی حاصل کرنا چاہتا ہے، اگر وہ اپنے دشمنوں پر غالب رہنا چاہتا ہے تو وہ اِس اہم وسیلے یعنی خُدا کے کلام کو کبھی بھی فراموش نہ کرے بلکہ وہ دن اور رات اِسی پر دھیان کرے اور اِس کی تابعداری میں اپنی زندگی گزارے۔ اُس نے ایسا ہی کیا، جب خُدا نے اُسے کچھ ایسا کرنے کا حکم دیا جو جنگی نقطہ نظر سے کسی طور پر معقول نظر نہیں آتا تھا لیکن اُس نے خُدا کے حکم پر عمل کیا اور اِسی بنیاد پر اُس نے وعدے کی سرزمین پر موجود قوموں پر غلبہ پا کر اُس سرزمین کو حاصل کیا۔

بائبل خُدا کی طرف سے وہ ذریعہ ہے جس پر اکثر ہم بڑی سنجیدگی کے ساتھ دھیان نہیں دیتے۔ ہم ایک نشانی کے طور پر اکثر اپنے ہاتھوں میں بائبل پکڑ کر چرچ لے جاتے ہیں، یا پھر ہم روزانہ اِس کا تھوڑا سا حصہ پڑھتے ہیں، شاید ایک دن میں ایک آیت یا پھر چند آیات، لیکن ہم خُدا کے کلام کو یاد یا ذہن نشین نہیں کرتے، اِس پر دھیان و گیان نہیں کرتے اور اِس کی تعلیمات کا اپنی زندگیوں پر اطلاق نہیں کرتے۔ اِسی لیے ہم خُدا کے حضور اپنے اُن گناہوں کا اقرار کرنے میں ناکام ہوتے ہیں جن کو یہ کلام ہم پر ظاہر کرتا ہے اور کلام جن رُوحانی نعمتوں کو ظاہر کرتا ہے اُن کے لیے خُدا کی تعریف و تمجید کرنے میں بھی ناکام ہوتے ہیں۔ جب کلامِ مُقدس کی بات آتی ہے تو ہم اکثر اِن دو میں سے ایک رویے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یا تو ہم عدم اشتہا کا مریض بن جاتے ہیں (ایسا شخص جس میں کچھ بھی کھانے پینے کی خواہش نہ ہو) یا پھر ہم بہت زیادہ بھوکے بن جاتے ہیں۔ ہم کلام میں سے صرف اُتنا سا حصہ اپنے لیے لیتے ہیں جو ہماری محض زندہ رہنے میں مدد کرے (لیکن کبھی بھی اتنا کلام نہیں لیتے جو ہمیں رُوحانی طور پر صحت مند بنا سکتا ہے)یا پھر ہم کلام کو اپنی زندگیوں میں لینے کے لیے بار بار آتے ہیں لیکن ہم زیادہ دیر تک کے لیے اِس پر غور و خوص نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم اِس سے رُوحانی ترقی کے لیے فوائد حاصل نہیں کر سکتے۔

یہ بہت اہم بات ہے ، اگر آپ نے روزانہ کی بنیاد پر خُدا کے کلام کو پڑھنے اور ذہن نشین کرنے کی عادت نہیں اپنائی تو آپ کو ابھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے اِس حوالے سے ایک روزنامچےکا استعمال (روزانہ اپنے مطالعے کا ڈائری پر ریکارڈ رکھنا) مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔اِس چیز کو اپنی عادت بنائیں کہ جوکچھ آپ نے کلام میں سے سیکھا ہے اُسے کسی جگہ پر لکھیں۔ کچھ لوگ خُدا سے کی گئی اپنی اُن دُعاؤں کا بھی ریکارڈ بناتے ہیں جن میں اُنہوں نے خُدا سے اپنی زندگی کے اُن حصوں میں تبدیلی کے لیے دُعا کی ہوتی ہے جن کے بارے میں خُدا نے اپنے کلام کے وسیلے اُن پر اپنی مرضی کو ظاہر کیا ہوتا ہے۔ بائبل ایک بہت اہم ذریعہ ہے جسے رُوح القدس ہماری زندگیوں میں استعمال کرتا ہے (افسیوں 6باب 17آیت)، یہ اُن ہتھیاروں کا ایک بہت ہی اہم اور بڑا حصہ ہے جو خُدا ہمیں رُوحانی جنگ میں فتح پانے کےہمیں زیب ِ تن کرنے کو کہتا ہے (افسیوں 6باب12-18آیات)۔

گناہ کے خلاف ہماری جنگ میں تیسرا اہم ذریعہ دُعا ہے۔ ایک بار پھر یہ وہ اہم ذریعہ ہے جسے اکثر مسیحی زبانی طور پر ہی ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں وہ اِس کا بہت ہی کمزور استعمال کرتے ہیں۔ آج ہمار ے ہاں دُعائیہ اجتماعات ہوتے ہیں، ہم نے اکثر دُعاؤں کے لیے مختلف اوقات مقرر کر رکھے ہیں لیکن ہم دُعا کو اُس طرح سے استعمال نہیں کرتے جیسے ابتدائی کلیسیا کیا کرتی تھی (اعمال کی کتاب 1باب 3آیت؛ 4باب 31آیت؛ 6باب 4آیت؛ 13باب 1-3آیات) ۔پولس بار بار یہ بیان کرتا ہے کہ جن لوگوں میں وہ خدمت کرتا رہا اُن کے لیے وہ کس طرح سے دُعا کیا کرتا تھا۔ خُدا نے دُعا کے حوالے سے ہمارے ساتھ بہت حیرت انگیز وعدے کئے ہیں (متی 7باب 7-11آیات ؛ لوقا 18باب 1-8آیات؛ یوحنا 6باب 23-27آیات؛ 1 یوحنا 5باب 14-15آیات )۔ اور جس حوالے میں پولس رُوحانی جنگ کی تیاری کی بات کرتا ہے اُس میں ہی وہ دُعا کے استعمال کو شامل کرتا ہے (افسیوں 6باب 18آیت)

ہماری زندگیوں میں گناہ پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے دُعا کس قدر ضروری ہے؟باغِ گتسمنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ پطرس کے مسیح کا انکار کرنے سے پہلے یسوع نے اُس سے کچھ خاص بات کی تھی۔ جب یسوع وہاں پر دُعا کر رہا تھا تو پطرس سو رہا تھا۔ یسوع نے اُسے جگایا اور کہا کہ "جاگو او ر دُعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو، رُوح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے" (متی 26باب41آیت)۔ ہم بھی پطرس کی طرح بھلائی کا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ قوت کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں خُدا کی طرف سے کی گئی اِس تلقین پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈھونڈتے رہیں، کھٹکھٹاتے رہیں اور مانگتے رہیں – اور پھرخُدا ہمیں وہ قوت عطا کرے گا جس کی ہمیں ضرورت ہے (متی 7باب 7آیت)۔ دُعا کوئی جادوئی فارمولہ نہیں ہےبلکہ یہ محض اپنی کمزوریوں اور حد بندیوں کو تسلیم کرتے ہوئے خُدا کی لامحدود قوت اور قدرت کا اقرار ہے اور پھر اُس سے وہ قوت حاصل کرنے کے لیے اُس کی طرف رجوع لانا ہے تاکہ ہم وہ سب کر سکیں جو خُدا ہم سے چاہتا ہے نہ کہ جو ہم خود کرنا چاہتے ہیں (1 یوحنا 5باب14-15آیات)۔

گناہ پر غالب آنے کا ہمارا چوتھا ذریعہ کلیسیا یعنی ایمانداروں کی رفاقت ہے ۔ جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو منادی کے لیے بھیجا تو اُس نے اُنہیں دو دو کر کے بھیجا تھا (متی 10باب 1 آیت)۔ اعمال کی کتاب کے دور میں مشنری ایک ایک کر کے نہیں گئے تھے بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں یعنی دو یا اِس سے زیادہ ملکر گئے تھے۔ یسوع ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں بلکہ ایک دوسرے کو محبت اور نیک کام کرنے کی ترغیب دیتے رہیں(عبرانیوں 10باب24آیت)۔ وہ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرتے رہیں(یعقوب 5باب 16آیت)۔ پرانے عہد نامے کے حکمتی ادب میں ہمیں یہ بتاتا گیا ہے کہ "جِس طرح لوہا لوہے کو تیز کرتا ہے اُسی طرح آدمی کے دوست کے چہرہ کی آب اُسی سے ہے"(امثال 27باب 17آیت)، دو ایک سے بہتر ہیں کیونکہ وہ قوت اور افادیت میں بڑھ جاتے ہیں(واعظ4باب 11-12آیات)۔

بہت سارے مسیحی ایماندار وں کا یہ تحربہ ہے کہ اپنے ساتھی کے سامنے جوابدہ ہونےکااپنی زندگی کے بہت بڑے اور ضدی گناہوں پر غالب آنے میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ اپنی زندگی میں کسی ایسے شخص کا ساتھ بہت زیادہ مفید ہوتا ہے جو ہم سے بات کر سکتا ہے، ہمارے لیے دُعا کر سکتا ہے، ہماری حوصلہ افزائی کر سکتا ہے اور حتیٰ کہ ہماری سرزنش کر سکتا ہے ۔ ہم سب کی زندگیوں میں آزمائش ایک بالکل عام سی چیز ہے (1 کرنتھیوں 10باب 13آیت)۔ اپنی زندگی میں کسی ایسے شخص کی یا ایسے گروہ کی موجودگی جس کے سامنے ہم جوابدہ ہوں ہمیں ایسا حوصلہ اور تحریک دے سکتی ہے جو ہمیں اپنی زندگی کے ضدی ترین گناہوں پر غالب آنے کے لیےدرکار ہوتا ہے۔

کئی دفعہ گناہ پر غلبہ بہت جلد حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن بہت دفعہ یہ غلبہ بہت زیادہ سست روی کے ساتھ حاصل ہوتا ہے۔ خُدا نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ جب ہم اُس کی طرف سے عطا کردہ وسائل کا استعمال کریں گے تو وہ بتدریج ہماری زندگی میں مثبت تبدیلیاں لے کر آئے گا۔ ہم گناہ کے خلاف اپنی کوششوں میں ثابت قدم رہ سکتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خُدا اپنے وعدوں میں سچا ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

مَیں کس طرح اپنی مسیحی زندگی میں گناہ پر غالب آ سکتا ہوں؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries