settings icon
share icon
سوال

ایک مضبوط دُعائیہ زندگی کی راہ میں کونسی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں؟

جواب


ایک مضبوط دُعائیہ زندگی کی سب سے زیادہ واضح رکاوٹ دُعا کرنے والے کے دِل میں ایسے گناہوں کی موجودگی ہے جن کا اُس نے اعتراف نہیں کیا ہوتا۔کیونکہ ہمارا خُدا پاک ہے،جب ہم اپنی زندگیوں میں گناہوں کو رکھتے ہوئے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کئے بغیرخُدا کے پاس آتے ہیں تو یہ گناہ ہمارے اور خُدا کے درمیان ایک دیوار بن جاتے ہیں۔ "بلکہ تمہاری بدکرداری نے تمہارے اور تمہارے خُدا کے درمیان جُدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے رُوپوش کیا ایسا کہ وہ نہیں سُنتا" (یسعیاہ باب 59باب 2آیت)۔ داؤد نے تجربے سے معلوم کیا کہ جو اپنے گناہوں کو چھپاتے ہیں خُدا اُن سے دُور ہے ، "اگر مَیں بدی کو اپنے دِل میں رکھتا تو خُداوند میری نہ سُنتا" (66زبور 18آیت)۔

بائبل گناہ کے کئی پہلوؤں کا ذکر کرتی ہے جو موثر دُعا میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ سب سے پہلے تو جب ہم رُوح کے مطابق زندگی گزارنے کی بجائے جسم کے مطابق زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، تو دُعا کے لئے ہماری خواہش اور خُدا کے ساتھ موثر رفاقت رکھنے کی ہماری قابلیت کو رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ ہم نئے سرے سے پیدا ہوتے وقت نئی فطرت حاصل کرتے ہیں، لیکن نئی فطرت ابھی بھی ہمارے پرانے بدن میں رہتی ہے، اور یہ پرانا "خیمہ" گناہ آلودہ اور بد اطوار ہے۔ جب تک ہم "بدن کے کاموں کو نیست و نابود کرنے"(رومیوں 8باب 13آیت)، اور خُدا کے ساتھ درُست تعلق میں رُوح کی ہدایت سے چلنے کے لئے سرگرم نہیں ہوں گےہمارا بدن ہمارے اعمال، رویوں، اور مقاصد پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ہم اُس وقت ہی خُدا کے ساتھ قریبی رفاقت میں دُعا کر سکتے ہیں جب ہم رُوح کی ہدایت سے چلتے ہیں۔

جسم میں زندگی گزارنے کا ایک واضح اظہار خودغرضی کی شکل میں بھی ہوتا ہے اور یہ دُعائیہ زندگی میں ایک اور رکاوٹ ہے۔ یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہماری دُعاؤں کو خودغرضی سے تحریک ملتی ہے۔ جب ہم اُن چیزوں کی بجائے جو خُدا چاہتا ہے اُن چیزوں کے لئے دُعا کرتے ہیں جو ہم خود چاہتے ہیں تو ہمارے مقاصد ہماری دُعاؤں میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ "اور ہمیں جو اُس کے سامنے دلیری ہے اُس کا سبب یہ ہے کہ اگر اُس کی مرضی کے موافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سُنتا ہے" (1یوحنا 5باب 14 آیت)۔ خُدا کی مرضی کے مطابق مانگنا در اصل اُس کی مرضی کی تابع فرمانی کرناہے۔چاہے ہم اِس بات سے واقف ہوں یا نہ ہوں کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔یسوع تمام چیزوں کی طرح دُعا میں بھی ہمارے لئے ایک بہتریں نمونہ ہے۔ اُس نے ہمیشہ خُدا کی مرضی کے مطابق دُعا کی، "پھر بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو" (لوقا 22باب 42آیت)۔ خود غرضی پر مبنی دُعائیں ہمیشہ ایسی دُعائیں ہوتی ہیں جو ہماری اپنی خود غرض خواہشات کو مطمئن کرنے کا اِرادہ رکھتی ہیں۔ ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ خُدا اِس طرح کی دُعاؤں کا جواب دے گا۔ "تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اِس لئے کہ بُری نیت سے مانگتے ہو تاکہ اپنی عیش و عشرت میں خرچ کرو" (یعقوب4 باب 3 آیت)۔

جسم کے مطابق زندگی اور جسمانی خواہشات ہماری دُعاؤں میں رکاوٹ بنتی ہیں کیونکہ یہ دوسروں کے لئے ہمارے دِلوں کو سخت کرتی ہیں۔ اگر ہم دوسروں کی ضروریات سے لاتعلق ہیں، تو ہم خُدا سے بھی توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری ضروریات سے لاتعلق ہو گا۔ جب ہم دُعا میں خُدا کے پاس جاتے ہیں تو ہماری پہلی فکر خُدا کی مرضی کو پورا کرنا ہونی چاہیے۔ دوسری فکر دوسروں کی ضروریات ہونی چاہیے۔ اِس سے یہی سمجھ آتی ہے کہ ہمیں دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھنا ہے اور اُن کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیج دینی چاہیے اور اپنے سے زیادہ اُن کے لئے فکر مند ہونا چاہیے۔

موثر دُعا کی ایک بڑی رکاوٹ دوسروں کو معاف نہ کرنے کی رُوح بھی ہے۔ جب ہم دوسروں کو معاف کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو ہمارے دِلوں میں کڑوی جڑ پھوٹ نکلتی ہے اور ہماری دُعاؤں کو روک دیتی ہے۔ اگر ہم دوسروں سے نفرت کرتے اور اُن سے سختی سے پیش آتے ہیں تو ہم خُدا سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی برکات کو نازل کرے۔ یہ اصول نہایت خوبصورتی سے متی18 باب 23-25 آیات میں مرقوم معاف نہ کرنے والے نوکر کی تمثیل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ خُدا نے ہمارا قرض (ہمارا گناہ) ہمیں معاف کیا جو کہ بے حساب تھا، اور وہ ہم سے بھی توقع کرتا ہے کہ ہم بھی دوسروں کے قرض معاف کریں جیسے ہمارےقرض معاف کئے گئے ہیں۔ معاف کرنے سے انکار ہماری دُعاؤں میں رکاوٹ بن جائے گا۔

موثر دُعا کی ایک اور بڑی رکاوٹ بے ایمانی اور شک ہے۔ اِس کا وہ مطلب نہیں جو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم بغیر کسی شک کے ایمان کے ساتھ خُدا کے پاس آتے ہیں کہ وہ ہماری درخواستیں منظور کرے گا، اب جب ہم اِس طرح سے دُعا کرتے ہیں تو یہ خُدا کے لیے لازم ہو گیا ہے کہ وہ لازمی ہی ہماری ہر ایک دُعا کا ویسا ہی جواب دے جیسا ہم نے اُس سے مانگا ہے۔ بغیر شک کے دُعا کرنے کا مطلب محفوظ ایمان میں دُعا کرنا اور خُدا کے کردار، فطرت، اور مقاصد کو سمجھنا ہے۔ "اور بغیر ایمان کے اُس کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اِس لئے کہ خُدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہیے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے" (عبرانیوں11 باب 6 آیت)۔ جب ہم دُعا میں خُدا کے پاس آتے ہیں، اور اُس کے کردار، مقصد، اور وعدوں پر شک کرتے ہیں توہم در اصل بُری طرح سے اُس کی توہین کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اعتماد رکھیں کہ خُدا ہماری اُن درخواستوں کو پورا کرنے کے قابل ہے جو اُس کی مرضی اور اُس خاص منصوبے کے مطابق ہیں جو وہ ہماری زندگی کے لئے رکھتا ہے۔ ضرور ی ہے کہ ہم اِس سمجھ کے ساتھ دُعا کریں کہ اُس کے جو بھی مقاصد ہیں بہترین ہیں۔ "مگر ایمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سُمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔ ایسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مجھے خُداوند سے کچھ ملے گا۔ وہ شخص دو دِلا ہے اور اپنی سب باتوں میں بے قیام" (یعقوب1 باب 6-7آیات)۔

آخر میں، گھر میں لڑائی جھگڑا بھی دُعا میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ پطرس خاص طور پر نااتفاقی کو ایسے شوہر کی دُعا میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرتاہے جسکا رویہ اپنی بیوی کے ساتھ خُدا ترس نہیں ہوتا۔ " اے شوہرو! تم بھی بیویوں کے ساتھ عقل مندی سے بسرکرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُس کی عزت کرو اور یُوں سمجھو کہ ہم دونوں زندگی کی نعمت کے وارث ہیں تاکہ تمہاری دُعائیں رُک نہ جائیں" (1 پطرس3 باب 7 آیت)۔ ایسا ماحول جہاں خاندانی اراکین کے تعلقات اور گھر کے سربراہ میں سنگین تنازعات ہوں تو یہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ جس بات کا پطرس نے ذکر کیا ہے چیزیں اُس سے متضاد ہیں۔ایسا ماحول خُدا کے ساتھ شوہر کے دُعائیہ تعلق کو روک دیتا ہے۔ اِسی طرح اگر بیویاں بھی چاہتی ہیں کہ اُن کی دُعاؤں میں رکاوٹ پیدا نہ ہو تو اُنہیں بھی اپنے شوہروں کی سرپرستی میں رہتے ہوئے اور فرمانبرداری کرتے ہوئے بائبل کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے(افسیوں 5باب 22-24 آیات)۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ اعتراف اور توبہ کی حالت میں خُدا کے حضور آنے کی بدولت اِن تمام رکاوٹوں کو ایک لمحے میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ 1یوحنا1 باب9 آیت میں ہماری یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ "اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے"۔ جب ہم ایسا کر لیتے ہیں تو ہم خُدا کے ساتھ گفتگو کرنے کے واضح اور کھلے راستے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اور ہماری دُعائیں نہ صرف سُنی جائیں گی اور اُن کا جواب دیا جائے گا، بلکہ ہم خوشی کے گہرے احساس سے بھی بھر جائیں گے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

ایک مضبوط دُعائیہ زندگی کی راہ میں کونسی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries