settings icon
share icon
سوال

مسیحی والدین کو کسی بچّے کی وفات کے سانحے سے کیسے نمٹنا چاہیے؟

video
جواب


بطورِ والدین ہم کسی بچّے کی موت سے بڑھکر درناک کسی اور تجربے کا تصور نہیں کر سکتے۔ تمام والدین فطری طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ اُن کے بچّے اُن کی موت کے بعد تک جیتے رہیں گے۔ ایسا کوئی دُکھ اگر کسی کی زندگی میں آ جائے تو وہ غیر معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، یہ ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ درد کا ایک بہت بڑا احساس لاتا ہے اور اِس کا غم مسلسل طور پر جاری رہتا ہے۔ ایسا کوئی بھی تجربہ والدین کے لیے مکمل طور پر زندگی کو بدل دینے والا ہوتا ہے اور جب والدین اُس بچّے کے بغیر اپنی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ چیزاُن والدین کے سامنےبہت مشکل چیلنج لاتی ہے۔



والدین کو یہ بتانے کی کوشش کرنا کہ اُنہیں اپنے کسی بچّے کی وفات کے سانحے سے کیسے نپٹنا چاہیےایک متکبرانہ عمل ہوگا۔ بہرحال ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنی زندگیوں کو خُدا کے سپرد کردیتے ہیں وہ اِس طرح کے دُکھ سے بحالی کا سفر جلد طے کر لیتے ہیں اور اُن کی زندگی جلد معمول پر آ جاتی ہے برعکس اُن لوگوں کے جو اپنے خالق پر سچا اور مثبت ایمان نہیں رکھتے ۔ اِس بات کی حقیقت کے پیشِ نظر ابھی دیکھنا یہ ہے کہ مسیحی والدین اپنے کسی بچّے کی وفات کے سانحے کے ساتھ کیسے نمٹتے ہیں؟کیا بائبل اِس موضوع کے بارےمیں بات کرتی ہے، اگر کرتی ہے تو کس طریقے سے؟

سب سے پہلے ہمیں اِس بات کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ایک انسان دُکھ اور غم کےساتھ اپنے طریقے سے نمٹتا ہے۔ جذبات کی شدت ہر کسی کے معاملے میں مختلف ہوتی ہے۔ یہ جذبات بالکل عام اور فطری ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ والدین میں سے کوئی بھی کسی بچّے کی وفات کے دُکھ کو بھلا نہیں سکتا۔ یہ کسی بیماری کی مانند نہیں ہے جس میں سے کوئی شفا پا کر اُسے بھول جاتا ہے۔ زیادہ تر صلاح کار اِسے زندگی کو تبدیل کر دینے والا جسمانی گھاؤ کہتے ہیں۔ اگرچہ ہم اِس بات کو جانتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ ہی اپنے اُس دُکھ کا احساس رہے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی شدت میں کمی آتی چلی جائے گی۔

یہ ایک پیار کرنے والے اور ہمیشہ وفادار خُدا کی ذات پر ہمارا مسیحی ایمان ہی ہے جوکسی انسان کو ایک بچّے کی وفات کے دُکھ کو برداشت کرنے اور بحالی کا سفر کرنے کے قابل بناتا ہے جو کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک بہت ہی زیادہ غیر معمولی بات ہے۔ ایسی ہی مثال داؤد کی تھی جس کا ایک بچّہ اپنی پیدایش کے سات دن بعد وفات پا گیا تھا (2 سموئیل 12باب18-19آیات)۔ اِس حوالے سے ہم کئی ایک بہت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں جس سے مسیحی کسی بچّے کی وفات کے دُکھ کے دوران تسلی اور مدد حاصل کرتے ہوئےمستقبل کا سامنا ایک اُمید کے ساتھ کر سکتے ہیں۔

ایک بات تو یہ ہے کہ داؤد نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اُس بچّے کے لیے دُعا کی (2 سموئیل 12باب 16آیت)۔ یہ عادت سبھی والدین کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچّوں کے لیے ہمیشہ ہی دُعا کریں نہ کہ صرف مشکل کے وقت پر ہی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ ہی اپنے بچّوں کے لیے دُعا کرتے رہیں اور خُدا سے التجا کرتے رہیں کہ وہ اُن کے بچّوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرے۔ اِس کے ساتھ ہی والدین کو یہ دُعا بھی کرنی چاہیے کہ خُدا اُنکے بچّوں کو الٰہی حکمت اور رہنمائی بھی عطا کرے کہ وہ خُد اکی مرضی اور اُس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاریں (قضاۃ 13باب12آیت؛ امثال 22باب 6آیت؛ افسیوں 6باب4آیت)۔

اِس حوالے سے ہم داؤد سے ایک سبق اُس کے بچّے کی وفات پر اُسکے اپنے رَد عمل سے سیکھتے ہیں۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ اُس کا وہ نومولود بچّہ مر گیا ہے تو ہمیں اُس کے بعد کےاُسکی طرف سے کئے جانے والے اقدامات میں بہت زیادہ قبولیت نظر آتی ہے۔وہ "زمین سے اُٹھا اور غسل کر کے اُس نے تیل لگایا اور پوشاک بدلی اور خُداوند کے گھر میں جا کر سجدہ کیا ، پھر وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے حکم دینے پر اُنہوں نے اُس کے آگے روٹی رکھی اور اُس نے کھائی" (2 سموئیل 12باب20آیت)۔ اِس حوالے میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اُس نے "خُداوند کے گھر میں جا کر سجدہ کیا۔" دوسرے الفاظ میں داؤد نے نہ صرف اپنے اُس بچّے کی وفات کو قبو ل کر لیا بلکہ اُس نے پرستش کے دوران اُس سارے واقعے اور دُکھ کو خُداوند کے حضور میں رکھ دیا۔ مشکل حالات اور دُکھوں کے دوران خُدا کی پرستش کرنے اور اُس کو عزت دینے کی قابلیت خُدا کی ذات پر اپنے رُوحانی اعتماد کا ایک بہت طاقتور مظاہرہ ہے۔ ایسا کرنا ہمیں کسی کو کھونے کی حقیقت کو قبول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اور اِسی طرح خُدا ہمیں آزادی بخشتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ پائیں۔ داؤد کی اِس کہانی سے جو مثالیں ہمیں ملتی ہیں وہ ہمیں اُس سب کو چھوڑ دینے کا سبق سکھاتی ہیں جسے ہم اپنی طاقت سے تبدیل نہیں کر سکتے۔

اگلا سبق ہم پر مزید اہم چیزوں کا انکشاف کرتا ہے۔ یہ اِس علم پر اعتماد ہے کہ وہ بچّے جو جوابدہی کی عمر سے پہلے وفات پاتے ہیں وہ آسمان پر خُدا کی حضوری میں جاتے ہیں۔ جب داؤد کے نوکروں نے بچّے کی وفات کے بعد اُس کے رَد عمل پر سوال کیا تو جو جواب داؤد نہیں اُنہیں دیا وہ ایسے بہت سارے ایمانداروں کے لیے تسلی کی بات ہے جنہوں نے اپنے نومولود یا کمسن بچّوں کو کھو دیا ہوتا ے۔ "اب تو وہ مَر گیا پس مَیں کس لئے روزہ ر کھوں؟ کیا مَیں اُسے لَوٹا لا سکتا ہُوں؟ مَیں تو اُس کے پاس جاؤں گا پر وہ میرے پاس نہیں لَوٹنے کا " (2سموئیل 12باب23آیت)۔ داؤد کو مکمل طور پر اِس بات پر اعتماد تھا کہ وہ آسمان پر اپنے بیٹے سے ملے گا۔ یہ حوالہ بڑی قوت کے ساتھ اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نومولود اور چھوٹے بچّے اِس دُنیا سے رخصت ہونے کی صورت میں آسمان پر چلے جاتے ہیں۔

کسی بچّے کی موت کا دُکھ سہنا ایک دلخراش سفر ہے۔ اپنے اُس دُکھ اور ماتم سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی واضح اصول نہیں ہیں۔ بہرحال کچھ صلاح کاروں اور اپنے بچّوں کی موت کا تجربہ کرنے والے لوگوں سے ہمیں کچھ مدد گار نصیحتیں ملتی ہیں:

• اِس بات کو جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کے ساتھ آپ کا خُدا ہے۔ آپ کے ساتھ مسیح میں آپکے دیگر بہن بھائی ہیں۔ آپ کے ساتھ آپ کے قریبی دوست اور آپکا خاندان ہے۔ اُن کے کندھے پر اپنا سر رکھیں، وہ آپکی مدد کرنے کے لیے موجود ہیں ۔

• اُس غم سے اپنی بحالی پر حدیں مقرر نہ کریں۔ یہ توقع ہرگز نہ کریں کہ آپ کا ایک بھی دن آپکے بچّے کے خیال کے بغیر نہیں گزرے گا۔ اور آپ ایسا کرنا بھی نہیں چاہیں گے۔

• اپنے بچّے کے بارے میں بات کریں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ آپ اپنے بچّے کی کہانی کو دوسروں کے ساتھ بانٹیں۔

• اپنا اور اپنے دوسرے بچّوں کا دھیان رکھیں۔ وہ بھی دُکھ میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنے بہن /بھائی کے وفات پانے کی وجہ سے دُکھی ہیں اور اِس کے ساتھ ہی جب وہ اپنے والدین کو اِس قدر دُکھ میں دیکھتے ہیں تو وہ مزید پریشان ہو جاتے ہیں۔

• اپنے بچّے کی وفات کے بعد کم از کم ایک سال تک کوئی بہت بڑا فیصلہ نہ کیجئے۔

• اِس بات کی توقع رکھیں کہ بچّے کی وفات کے بعد آنے والے پہلے پہلے تہوار یا اہم مواقع جیسے کہ پہلی سالگرہ، پہلا کرسمس وغیرہ بہت زیادہ دُکھ کا وقت ہوگا۔

اور آخری میں وہ مسیحی جنہیں اپنے کسی بچّے کی وفات کا تجربہ ہوا ہے اُن کے ساتھ کلامِ مُقدس میں بہت بڑا اور وفا سے بھرپور وعدہ کیا گیا ہے:"اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا ۔ اِس کے بعد نہ مَوت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا ۔ نہ آہ و نالہ نہ درد ۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں" (مکاشفہ 21باب4آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

مسیحی والدین کو کسی بچّے کی وفات کے سانحے سے کیسے نمٹنا چاہیے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries