settings icon
share icon
سوال

آملینیل ازم کیا ہے؟

جواب


آملینیل ازم اُس تصور کا نام ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ مسیحی کی ہزار سالہ بادشاہت حقیقی زمینی بادشاہی نہیں ہوگی۔ اِس تصور کو ماننے والوں کو انگریزی زبان میں Amillennialistsکیا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح انگریزی لفظ ملینیل (millennial) کے ساتھ ایک سابقہ یعنی اِس کے آغاز میں حرف "A" لگا کر بنائی گئی ہے۔ یہاں پر حرف "A" کے معنی ہیں "نہیں"۔ پس اِس اصطلاح "آملینیل ازم" کے لغوی معنی بنتے ہیں "ہزار سالہ بادشاہت نہیں"۔ مسیحیوں میں بڑے پیمانے پر مانا جانے والے عقیدہ"پری ملینیل ازم (premillennialism)" ہے (یعنی مسیح کی آمدِ ثانی ہزار سالہ بادشاہت سے پہلے ہوگی اور ہزار سالہ بادشاہت حقیقی زمینی بادشاہت ہوگی)۔ اِس کے بعد کم مقبول نظریہ پوسٹ ملینیل ازم ہے(یعنی مسیح خود نہیں بلکہ مسیحی اِس دُنیا پر بادشاہت قائم کریں گے اور یسوع اُس بادشاہی کے دور کے بعد آئے گا)۔ لیکن آ ملینیل ازم کا نظریہ اِن دونوں نظریات سے بالکل مختلف ہے۔

تاہم آملینیل ازم کے پیروکاروں کے حوالے سے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایسا نہیں کہ وہ یہ کہتے ہوں کہ ایک ہزار سالہ بادشاہت بالکل نہیں ہو گی۔ وہ صرف مسیح کی حقیقی زمینی ایک ہزار سالہ بادشاہت کو نہیں مانتے ۔ اِس کی بجائے، وہ ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح اب داؤد کے تخت پر بیٹھ چکا ہے اور یہ موجودہ کلیسیائی دور ایک بادشاہت ہے جس پر مسیح حکمرانی کر رہا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسیح تخت پر بیٹھا ہے، لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ وہی تخت ہے جسے بائبل داؤد کے تخت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ بے شک مسیح اب بادشاہی کر رہا ہے، کیونکہ وہ خُدا ہے۔ پھر بھی اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک ہزار سالہ بادشاہی کر رہا ہے۔

خُدا کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ اپنے وعدوں کو برقرار رکھنے اور داؤد کے ساتھ کئے گئے وعدوں (2سموئیل7باب8-16آیات؛ 89زبور 3-4آیات) کو برقرار رکھنے کے لئے اِس زمین پریسوع مسیح کاحقیقی بادشاہت کرنا لازمی ہے۔مسیح کی بادشاہت کےحوالے سے شک کرنا خُدا کی خواہش اور/یا اُس کے وعدوں کو برقرار رکھنے کی قابلیت پر سوال اُٹھاتا ہے اور اِس سے علمِ الہیات کے دیگرمسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر خُدا اسرائیل سے کئے گئے اپنے وعدوں کو "ابدی" عہد قرار دے کر اپنے وعدوں سے پھرے گا تو ہم اُس کے باقی وعدوں بشمول یسوع مسیح میں ایمانداروں کے ساتھ کئے گئے نجات کے وعدے پر کس طرح یقین کر سکتے ہیں۔ واحد حل یہی ہے کہ ہم یقین کریں کہ وہ اپنے وعدوں کو حقیقی طور پر پورا کرے گا۔

ذیل میں بائبل کےوہ واضح دلائل پیش کیے گئے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مسیح کی ہزار سالہ بادشاہت حقیقی اور زمینی ہوگی:

‌أ. مسیح کے پاؤں اُس کی بادشاہی کے قائم ہونے سے پہلے حقیقی طور پر کوہِ زیتون کو چھوئیں گے ۔(زکریاہ14باب 4، 9آیات)

‌ب. بادشاہی کے دوران، مسیح زمین پر عدل و انصاف قائم کرے گا (یرمیاہ 23باب5-8آیات)۔

‌ج. بادشاہی آسمان سے نیچے ہو گی (دانی ایل17 باب 13-14، 27آیات)۔

‌د. نبیوں نے بادشاہی کے دوران ڈرامائی تبدیلیوں کے بارے میں پیشن گوئیاں کی ہیں (اعمال3 باب 21آیت؛ یسعیاہ 35باب1-2آیات، 11 باب 6- 9آیات؛ 29 باب 18آیت، 65 باب 20-22آیات؛ حزقی ایل 47 باب 1-12آیات؛ عاموس 9باب11-15آیات)۔

‌ه. مکاشفہ میں موجود واقعات کی تواریخی ترتیب دُنیا کی تاریخ کے اختتام سے پہلے ایک حقیقی زمینی بادشاہی کی طرف اشارہ کرتی ہے (مکاشفہ 20)۔

آملینیل ازم تصور دو خاص طریقوں سےوجود میں آیا ہے، ایک تو اُن نبوتوں کی تفسیر کے طریقے سے جو ابھی پوری نہیں ہوئی ہیں اور دوسرےنمبر پر غیر نبوتی کلام اور پوری ہو جانے والی نبوتوں کی تفسیر کے طریقے سے۔ اُن کے مطابق کلامِ مُقدس کے غیر نبوتی حوالہ جات اور پوری ہو جانے والی نبوتوں کی تفسیر تو لغوی معنوں میں کی جا سکتی ہے لیکن ابھی تک پوری نہ ہونے والی نبوتوں یا پیشن گوئیوں کی تفسیر رُوحانی اور غیر لغوی طریقے سے کی جانی چاہیے۔ آملینیل ازم کے ماننے والوں کا خیال ہے کہ اُن نبوتوں یا پیشن گوئیوں کی جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہیں رُوحانی تفسیر کرنا درست ہے اور یہی متن کا مطالعہ کرنے کا درست طریقہ ہے۔ اِسے دوہرا علم التفسیر کہا جا سکتا ہے(علم التفسیر کلامِ مُقدس کی تفسیر کے اصولوں کا مطالعہ ہے)۔ آملینیل ازم کے حامی یہ فرض کر لیتے ہیں کہ زیادہ تر یا تمام تر غیر تکمیل شدہ پیشن گوئیاں علامتی، مجازی، روحانی زُبان میں لکھی گئی ہیں۔ اِس لئے وہ اِن حوالہ جات کے اُن حصوں کے الفاظ کے لئے عام، سیاق و سباق کے معنی کے برعکس مختلف معنی فراہم کرتے ہیں۔

اِس انداز میں ابھی تک پوری نہ ہونے والی نبوتوں کی تشریح کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یوں اِس کے بہت سے مختلف معنی لیے جا سکتے ہیں۔ جب تک آپ بائبل کی عام مفہوم میں تشریح یا تفسیر نہیں کرتے ہیں، اِس کے صرف ایک یا مخصوص معنی نہیں لیے جا سکتے ۔ حالانکہ خُدا نے جو بائبل کا حتمی مصنف ہے جب انسانی مصنفین کو لکھنے کے لئے الہام دیا تو اُس کا کلام ایک مخصوص معنی کا حامل تھا۔ اگرچہ بائبل کے ایک حوالے کا اطلاق بہت سی زندگیوں پر ہو سکتا ہے، لیکن اُس کا صرف ایک ہی مطلب ہے، اور اُس کا مطلب صرف وہی ہے جس کا اِرادہ خُدا نے کیا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس حقیقت کے پیشِ نظر کہ بہت ساری نبوتیں یا پیشن گوئیاں جو کی گئی تھیں وہ بالکل درست طور پر اور حقیقی انداز میں پوری ہو گئی ہیں ہم اِس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں کہ جو نبوتیں ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہیں وہ بھی حقیقی انداز میں پوری ہونگی۔ اِس لئے ہمیں مسیح کی دوسری آمد سے متعلق پیشن گوئیوں کے حقیقی طور پرلغوی معنوں میں پورا ہونے کی بھی توقع کرنی چاہیے ۔ اِن وجوہات کی بناء پر،اُن نبوتوں یا پیشن گوئیوں کی مجازی تشریح یا تفسیر مسترد ہونی چاہیےجو ابھی تک پوری نہیں ہوئیں اور ہمیں ابھی تک پوری نہ ہونے والی پیشن گوئیوں کی بالکل لغوی اور عام طریقے سے تشریح و تفسیر قبول کرنی چاہیے۔ آ ملینیل ازم کا نظریہ اِس حوالے سے ناکام ہوتا ہے۔کیونکہ یہ غیر ہم آہنگ علم التفسیر کا استعمال کرتا ہے، یعنی یہ پوری ہو جانے والی نبوتوں کی تفسیر اور طریقے سے کرتا ہے اور ابھی تک پوری نہ ہونے والی – مستقبل کے بارے میں نبوتوں کی تفسیر مختلف طریقے سے کرتا ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

آملینیل ازم کیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries