settings icon
share icon
سوال

کیا بائبل حقیقت میں خُدا کا کلام ہے؟

جواب


اِس سوال کا جواب نہ صرف اِس بات کا تعین کرے گا کہ ہم بائبل کو اور اپنی زندگیوں میں اِس کی اہمیت کو کیسے دیکھیں بلکہ اِس کا ہماری زندگیوں کے اوپر ابدی اثر ہوگا۔ اگر بائبل حقیقت میں خُدا کا کلام ہے تو پھر تو ہمیں چاہیے کہ ہم اِسے عزیز رکھیں، اِس کا مطالعہ کریں، اِس کے احکام پر عمل کریں اور اِس پر مکمل بھروسہ رکھیں۔ اگر بائبل خُدا کا کلام ہے تو پھر اِس کو رَد کرنا دراصل خُدا کی ذات کو رَد کرنا ہے۔


یہ حقیقت کہ خُدا نے ہمیں بائبل عطا کی ہے دراصل یہ اُس کی محبت کا ثبوت اور تصویر کشی ہے۔ کلام کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح "مکاشفہ" کا سادہ ترین مطلب یہ ہے کہ خُدا نے بنی نوع انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کیسا ہے اور ہم کس طرح اُس کے ساتھ ایک درست رُوحانی تعلق رکھ سکتے ہیں؟یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں اگر خُدا بائبل کے ذریعے سے ہم پر ظاہر نہ کرتا تو ہم یقینی طور پر جان نہ پاتے۔ اگرچہ خُدا کی طرف سے اپنی ذات کا مکاشفہ بائبل کے اندر بتدریج قریباً 1500 سالوں کے عرصے کے دوران دیا گیا ہے، لیکن ہر زمانے میں جتنا بھی مکاشفہ لوگوں کے پاس تھا اُس میں ہر وہ چیز تھی جسے انسانوں کو جاننے کی ضرورت تھی تاکہ وہ خُدا کے ساتھ بالکل درست رُوحانی تعلق رکھ سکیں۔ اگر بائبل خُدا کا کلام ہے تو پھر یہ ایمان، مذہب، اعمال اور اخلاقیات کے تمام معاملات میں حتمی اختیار کی حامل ہے۔

ابھی سوال یہ ہے کہ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ بائبل محض ایک اچھی کتاب ہی نہیں ہے بلکہ خُدا کا کلام ہے۔ بائبل میں ایسی کونسی خاص بات ہے جو اِسے نسلِ انسانی کی تاریخ میں لکھی جانے والی سبھی مذہبی کتابوں سے منفرد بناتی ہے؟ کیا کوئی ایسا ثبوت موجود ہے جو یہ ثابت کرتا ہو کہ بائبل خُدا کا کلام ہے؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بائبل کے ایسے دعوؤں کی صداقت کا تعین کریں کہ یہ خُدا کا کلام ہے، یہ الہام کے ذریعے سے ہم تک پہنچی اور ایمان اور اعمال کے حوالے کسی بھی معاملے کے لیے یہ کافی ہے تو پھر ہمیں اِس طرح کے سوالات کا بڑی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اِس بات میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں پایا جاتا کہ بائبل خُدا کا کلام ہونے کی دعویدار ہے۔ ہم اِس بات کو پولس کی طرف سے تیمتھیس کی تعریف میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں: "اور تُو بچپن سے اُن پاک نوِشتوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوع پر اِیمان لانے سے نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی بخش سکتے ہیں۔ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے تعلیم اور اِلزام اور اِصلاح اور راست بازی میں تربیت کرنے کے لیے فائدہ مند بھی ہے۔تاکہ مردِ خُدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔" (2تیمتھیس 3باب15-17آیات)

بائبل کے خُدا کا کلام ہونے کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے ثبوت موجود ہیں۔ اندرونی ثبوت وہ ہیں جو بائبل کے اندر سے اِس کے الہامی ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔بائبل کے خُدا کا الہامی کلام ہونے کے حوالے سے اندرونی ثبوتوں میں سے سب سے پہلا ثبوت اِس کی کتابوں کے اندر پائی جانے والی ہم آہنگی ہے۔ اگرچہ بائبل میں چھیاسٹھ منفرد نوعیت کی کتابیں موجود ہیں جو تین مختلف براعظموں پر لکھی گئیں، تین مختلف طرح کی زبانوں میں لکھی گئیں، اِن کو لکھنے میں قریباً 1500 سال کا عرصہ لگا، پھر اِس کے لکھاری زندگی کے بہت ہی مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تعداد قریباً چالیس تھی لیکن اِس کے باوجود بائبل اپنے آغاز سے لیکر اختتام تک ایسا کتابی مجموعہ ہے جس کی تحریریں کبھی بھی دوسری تحریروں کی تردید نہیں کرتیں۔ بائبل کی کتابوں کے اندر پائی جانے والی ہم آہنگی بالکل منفرد ہے جو دُنیا کی دیگر مذہبی کتابوں کے اندر نہیں پائی جاتی اور یہ ثابت کرتی ہے کہ جو الفاظ خُدا نے اپنے بندوں کو رُوح القدس کی تحریک سے لکھوائے وہ الہامی ہیں۔

اندرونی ثبوتوں میں سے ایک اورثبوت جو یہ ثابت کرتا ہے کہ بائبل حقیقت میں خُدا کا کلام ہے وہ اِس کے اندر پائی جانے والی نبوتیں ہیں۔ بائبل کے اندر مختلف افراد، قوموں بشمول اسرائیل ، مخصوص شہروں اور بنی نوع انسان کے بارے میں سینکڑوں کی تعداد میں بڑی تفصیلی نبوتیں پائی جاتی ہیں۔ دیگر نبوتیں اُس آنے والے مسیحا کے بارے میں ہیں جو اُن سب کا نجات دہندہ ہوگا جو اُس پر ایمان لائیں گے۔ دُنیا کی دیگر مذہبی کتابوں میں پائی جانے والی نبوتوں اور ایسی نبوتوں کے برعکس جو مختلف انسانوں نے کی ہیں جیسے کہ نوسٹراڈیمس، بائبل میں پائی جانے والی نبوتیں انتہائی مفصل ہیں۔ پرانے عہد نامے کے اندر خُداوند یسوع مسیح کے بارے میں ہی تین سو سے زیادہ نبوتیں پائی جاتی ہیں۔ اُن نبوتوں میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کہاں پر اور کس خاندان میں سے پیدا ہوگا بلکہ اُن میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح کی موت مرے گا اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ بائبل کے اندر پائی جانے والی نبوتوں کی کوئی بھی اور منطقی وضاحت پیش نہیں کی جا سکتی سوائے اِس کے کہ یہ خُدا کا کلام ہے۔ دُنیا کی کسی بھی اور مذہبی کتاب کے اندر اِس طرح کی اور اِس تعداد میں نبوتیں نہیں پائی جاتیں جیسی اور جتنی ہم بائبل کے اندر دیکھتے ہیں۔

بائبل کے الہامی کلام ہونے کا تیسرا اندرونی ثبوت اِس کا منفرد اختیار اور قوت ہے۔ اگرچہ یہ ثبوت پہلے دونوں ثبوتوں کے لحاظ سے زیادہ نسبتی (شخصی رائے پر مشتمل) ہےلیکن اِسکے باوجود یہ بائبل کے الہامی یعنی خُدا کا کلام ہونے کا قطعی طور پر اُن سے کم ثبوت نہیں ہے۔ بائبل کا جو اختیار دیکھا جا سکتا ہے وہ آج کے دور تک لکھی جانے والی کسی بھی اور کتاب میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ اگر اِس اختیار اور قوت کو دیکھنا ہو تو یہ ایسے دیکھا جا سکتا ہے کہ خُدا کے کلام کی مافوق الفطرت قوت کی وجہ سے بے شمار زندگیاں مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہیں۔ نشے کی لت کا علاج اِس کتاب کی بدولت ممکن ہو سکا، بے شمار ہم جنس پرستوں کو اِس کتاب نے رہائی بخشی، بہت سارے لاوارثوں اور سُست گام لوگوں کی زندگیوں کو اِس نے تبدیل کیا، انتہائی خطرناک اور پرانے مجرموں کی زندگیا ں اِس کے وسیلے بدل گئیں، اِس نے بہت سارے گناہگاروں کی سرزنش کی اور نفرت کو محبت میں بدل دیا۔ بائبل کے اندر ایک بہت ہی زبردست اور مکمل طور پر تبدیل کر دینے والی قوت موجود ہے کیونکہ یہ حقیقت میں خُدا کا کلام ہے۔

اِس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بیرونی ثبوت بھی ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بائبل حقیقت میں خُدا کا کلام ہے۔ پہلی چیز بائبل کی تاریخ ہے۔ کیونکہ بائبل تفصیل کے ساتھ تاریخی واقعات کو بیان کرتی ہےاِس لیے بائبل کے تاریخی بیانات کی کسی بھی دوسری تاریخی کتاب کے بیان کی طرح تصدیق کرنے کی ضرورت ہے۔ علم ِ آثارِ قدیمہ اور دیگر تصانیف دونوں ہی بار بار بائبل مُقدس میں بیان کردہ تاریخی تفاصیل کو بالکل درست ثابت کر چکی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علمِ آثارِ قدیمہ اور متن سے متعلق پائے جانے والے ثبوت جو بائبل کی سچائی کو ثابت کرتے ہیں اُن کی روشنی میں بائبل قدیم دور کی سبھی کتابوں سے بالکل منفرد انداز میں بہترین طور پر لکھی جانے والی کتاب ہے۔ بائبل میں ایسے واقعات کے بالکل سچائی کے ساتھ اور بالکل درست طور پر درج کئے جانے کی حقیقت جن کی ہم تاریخی لحاظ سے تصدیق کر سکتے ہیں اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب بائبل مذہبی اور عقائدی معاملات کے بارے میں بات کرتی ہے تو اُس وقت بھی بالکل سچی کتاب ہے اور یہ چیزبائبل کے اِس دعوے کی بھی پختہ دلیل پیش کرتی ہے کہ یہ خُدا کا زندہ کلام ہے۔

بائبل کے خُدا کے کلام ہونے کا ایک اور بیرونی ثبوت اُس کےاُن مصنفیں کی ایمانداری ہےجنہیں خُدا نے رُوح القدس کی تحریک سے کلامِ مُقدس کو قلمبند کرنے کے لیے استعمال کیا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ، خُدا نے زندگی کے بہت سارے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنا کلام قلمبند کرنے کے لیے استعمال کیا۔ جب ہم اِن آدمیوں کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اُنہیں بہت پُر خلوص، سنجیدہ اور ایماندار پاتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ وہ اپنے ایمان کی خاطر دردناک ترین طریقوں سے دی جانے والی موت کا سامنا کرنے کو بھی تیار تھے اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ عام لیکن ایماندار آدمی یہ مانتے تھے کہ واقعی خُدا نے ہی اُن کے ساتھ کلام کیا ہے۔وہ آدمی جنہوں نے نیا عہد نامہ قلمبند کروایا اور دیگر سینکڑوں ایماندار(1 کرنتھیوں 15باب 6آیت) اپنے پیغام کی سچائی کو جانتے اور مانتے تھےکیونکہ یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُنہوں نے اُس کے ساتھ کافی وقت گزارا تھا۔ مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے مسیح کو دیکھنے اور اُس کے ساتھ وقت گزارنے جیسے تجربے نے اُن لوگوں کو انتہائی منفرد انداز سے متاثر کیا تھا۔ اِس وجہ سے وہ اُن جگہوں سے نکلے جہاں پر وہ خوف کی وجہ سے چُھپے بیٹھے تھے اور جو پیغام خُدا نے اُنہیں دیا تھا اُس کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کرنے کےلیے تیار ہو گئے۔ اُن کی زندگیاں اور اموات اِس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ بائبل حقیقت میں خُدا کا کلام ہے۔

بائبل کے خُدا کا کلام ہونے کا آخری بیرونی ثبوت اِس کتاب کی بقاء یا فنا ناپذیری ہے۔ اِس کتاب کی اہمیت اور اِس کے اِن دعوؤں کی وجہ سے کہ یہ خُدا کا کلام ہے اِس نے ایسے بہت ہی شدید قسم کے حملوں کا سامنا کیا ہے جن میں اِس کتاب کو تاریخ کے اندر بہت دفعہ فنا کر دینے کی کوششیں کی گئیں۔ ابتدائی رومی سلطنت جیسے کہ ڈایوکلیشن سے لیکر کیمونسٹ آمروں اورموجودہ دور میں دہریوں اور وجوب پرستوں جیسے سارے ہی حملہ آوروں کے سامنے اور اُن کے خلاف بائبل بڑی شان سے کھڑی رہی ہے اور آج کے دن تک بھی یہ سب سے زیادہ چھپنےاور پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

مختلف اوقات میں تشکیک پرست بائبل کو ایک دیومالائی داستانوں کی کتاب قرار دیتے رہے ہیں، لیکن علمِ آثارِ قدیمہ نے اِس کو ایک تاریخی کتاب ثابت کیا ہے۔ اِس کے مخالفین نے اِس کی تعلیمات کو بھی قدیم اور موجودہ دور کے مطابق غیر موزوں قرار دینے کی کوششیں کی ہیں لیکن اِس کے اخلاقی اور عدالتی نظریات اور تعلیمات پوری دُنیا کے اندر مختلف معاشروں اور تہذیبوں پر بہت مثبت اثرانداز ہوئی ہیں۔آج بھی اِسے نام نہاد سائنسی شعبہ جات، نفسیات اور سیاسی تحریکوں کی طرف سے مختلف طرح کے حملوں کا سامنا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود یہ آج بھی اُتنی ہی سچی اور باموقع اور مفید ہے جتنی یہ تحریر ہونے کے وقت تھی۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے گزشتہ 2000 سالوں کے دوران بے شمار زندگیوں اور تہذیبوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اِس کے مخالفیں اِس پر کس طرح سے حملے کرتے ہیں، اِس کو تباہ کرنے کی اورجھوٹا ثابت کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اِس کو ماننے والے لوگوں کی زندگیوں میں بائبل کی صداقت اور اِس کا اثر بالکل واضح ہے۔ ہمارے لیے یہ حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ بائبل پر جب بھی اور جیسے بھی حملے کئے گئے ہیں یہ ہمیشہ ہی اُن کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے بالکل اپنی اصل حالت میں بے آنچ اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ آخر یسوع نے خود یہ کہا ہے کہ "آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں نہ ٹلیں گی" (مرقس 13باب31آیت)۔اِن ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی شخص بلا شک و شبہ یہ کہہ سکتا ہے کہ بائبل حقیقت میں خُدا کا کلام ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا بائبل حقیقت میں خُدا کا کلام ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries